Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
تمہارے لیے یعنی اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور آخرت کے دن سے ڈرتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہو رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
مومنین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اسوہ ہے اہل ایمان نے اللہ سے سچا وعدہ کیا اور اس پر پورے اترے ان آیات میں اول تو اہل ایمان کو تلقین فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتے رہیں، غزوہ احزاب میں بھی سب کو وہی کرنا لازم تھا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا، کسی کو اپنی جان بچا کر چلے جانا درست نہیں تھا۔ اس میں اہل ایمان کو تعلیم فرما دی کہ جیسے اب رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا اور اتباع کیا اسی طرح آئندہ بھی آپ کا اتباع کریں اور آپ کی ذات گرامی کو اپنے لیے اسوۂ حسنہ یعنی عملی زندگی کا نمونہ بنائیں، جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور یوم آخرت کی پیشی کا یقین رکھتے ہیں انہیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مومنین کی تعلیم و تلقین کے ساتھ ہی منافقین پر تعریض بھی ہے جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود راہ فرار کو پسند کیا اور لوگوں کو غزوہ کی شرکت سے روکا۔ بات یہ ہے کہ صرف دعویٰ کچھ کام نہیں دیتا جب کسی کام کا دعویٰ کرے تو اس کو سچا کر دکھائے، منافقین دنیاوی مصالح کی بناء پر ایمان کا دعویٰ تو کر بیٹھے جب آزمائش آئی تو وعدہ کو نبھاہ نہ سکے، ان کا اعمال و اقوال سے جھوٹا ہونا صاف طریقے پر واضح ہوگیا۔
Top