Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان کی مدد کی اللہ نے ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ تم ایک جماعت کو قتل کرنے لگے اور ایک جماعت کو قید کرنے لگے،
اہل کتاب کو غداری کی سزا مل گئی اور اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرما دیا جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ مدینہ منورہ میں پہلے سے یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، جب رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں کے تمام رہنے والوں کے درمیان ایک معاہدہ کروا دیا جس میں خود آپ ﷺ بھی مہاجرین و انصار کے ساتھ شریک تھے اور یہودیوں کے تینوں قبیلوں کو بھی شریک فرمالیا تھا۔ اس معاہدے میں جو باتیں لکھی گئی تھیں ان میں یہ بھی تھا کہ آپس میں جنگ نہ کریں گے اور یہ کہ مدینہ منورہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہوگا تو سب مل کر دفاع کریں گے، ان میں سے بنی قینقاع نے غزوہ بدر کے بعد ہی اس عہد کو توڑ دیا تھا جس کی سزا انہیں مل گئی۔ ان کے بعد قبیلہ بنی نضیر نے عہد توڑا جنہیں 4 ھ میں مدینہ منورہ سے جلا وطن کردیا گیا اور وہ خیبر میں جاکر آباد ہوگئے اور وہاں بس جانے کے بعد قریش مکہ اور بنی غطفان وغیرہم کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جس کے نتیجے میں غزوہ احزاب پیش آیا، اب صرف قبیلہ بنو قریظہ مدینہ منورہ میں باقی رہ گیا تھا جو اپنے عہد پر قائم تھا، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا بنی نضیر کو جب مدینہ منورہ سے جلا وطن کردیا گیا تو انہوں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر قریش مکہ اور بنی غطفان کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف ابھارا اور مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا اور یہ عزم لے کر چلے کہ مسلمانوں کو بالکل ختم ہی کردینا ہے۔ جن یہودیوں نے قریش مکہ اور بنو غطفان وغیرہم کو اس کے لیے آمادہ کیا تھا ان میں حی بن اخطب بھی تھا جو بنی نضیر کا سردار تھا، جب یہ دشمنان اسلام کی جماعتوں کو لے کر مدینہ منورہ پہنچا اور خندق کے باہر پڑاؤ ڈالنا پڑا تو وہ موقع پاکر بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا اور اسے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، کعب بن اسد نے اول تو اپنے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا اور ابن اخطب کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر عہد شکنی سے انکار کردیا کہ محمد ﷺ سے میرا معاہدہ ہے میں نے ان کی طرف سے وفائے عہد اور سچائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا لہٰذا میں عہد شکنی نہیں کروں گا، لیکن ابن اخطب برابر اصرار کرتا رہا اور باتیں بناتا رہا، کعب بن اسد نے کہا کہ اچھا اگر قریش مکہ اور بنی غطفان نامراد ہو کر واپس ہوگئے اور محمد ﷺ صحیح سالم مدینہ منورہ میں رہ گئے تو تیرا اور ہمارا کیا معاملہ بنے گا ؟ ابن اخطب نے کہا کہ میں تیرے ساتھ تیرے قلعہ میں داخل ہوجاؤں گا پھر جو تیرا حال بنے گا میں بھی اسی میں تیرا ساتھی رہوں گا، یہ بات سن کر کعب بن اسد نے معاہدہ توڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ سے جو معاہدہ کیا تھا اس سے بری ہوگیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ اور عبد اللہ بن رواحہ اور خوات بن جبیر ؓ کو بھیجا کہ جاؤ تحقیق حال کرو، یہ حضرات بنو قریظہ پہنچے تو دیکھا کہ وہ واقعی عہد توڑ چکے ہیں، ان حضرات نے واپس ہو کر رسول اللہ ﷺ کو اصل صورت حال سے مطلع کردیا، اس کے بعد جب قریش مکہ اور بنی غطفان وغیرہم ناکام واپس چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ شہر مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے اور ہتھیار رکھ کر غسل فرمالیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ہتھیار رکھ دئیے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اللہ کی قسم ہم نے تو ہتھیار نہیں رکھے، اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتا ہے کہ آپ بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوجائیں میں بھی ان کی طرف جا رہا ہوں میں ان کے قلعوں میں زلزلہ لاؤں گا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے اور مسلمانوں کے پاس خبر بھیج دی کہ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوجائیں اور وہیں جاکر عصر کی نماز پڑھیں، حضرات صحابہ کرام ؓ روانہ ہوئے بعض نے یہ سمجھ کر راستہ میں عصر کی نماز پڑھ لی کہ وقت ختم ہو رہا ہے، انہوں نے آپ کے ارشاد کا یہ مطلب سمجھا کہ نماز پڑھ لی جائے تاکہ نماز قضاء نہ ہو اور بعض حضرات نے نماز قضاء کردی اور وہیں جاکر پڑھی، ان حضرات نے ظاہر حکم کو دیکھا اور اپنی طرف سے اس کا کوئی مفہوم تجویز نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی کو بھی ملامت نہیں کی۔ اس سے علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ مجتہدین کرام کا اختلاف (جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں) منکر نہیں ہے، ہر مجتہد کو اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ثواب ملتا ہے۔ بنی قریظہ کا قبیلہ مدینہ منورہ سے باہر تین چار میل کے فاصلے پر رہتا تھا، رسول اللہ ﷺ اور حضرات صحابہ ] ان کے علاقوں میں پہنچ گئے اور وہ لوگ قلعہ بند ہوگئے، آپ ﷺ نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ فرمایا۔ یہ محاصرہ ان کے لیے مصیبت بن گیا ان سے کعب بن اسد نے کہا کہ دیکھو میں تم پر تین باتیں پیش کرتا ہوں جس کو چاہو قبول کرلو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب مل کر محمد ﷺ پر ایمان لے آئیں اور آپ ﷺ کی تصدیق کرلیں، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم پر یہ بات کھل چکی ہے کہ یہ واقعی نبی ہیں اور رسول ہیں اور ان کی شخصیت وہی ہے جن کا تم اپنی کتاب یعنی تورات شریف میں ذکر پاتے ہو، اگر ایسا کرلو گے تو تمہاری جانیں اور تمہاری اولاد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے اموال سب محفوظ ہوجائیں گے، یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اپنا دین نہیں چھوڑ سکتے۔ کعب بن اسد نے کہا کہ اگر تم اس رائے کو قبول نہیں کرتے تو دوسری رائے یہ ہے کہ ہم سب اپنے بیوی بچوں کو قتل کردیں اور محمد ﷺ اور ان کے اصحاب کی طرف ننگی تلواریں لے کر نکل جائیں، پھر اللہ کا جو فیصلہ ہو وہ ہوجائے گا اگر ہم سب ہلاک ہوگئے تو بال بچوں کی طرف سے کوئی فکر نہ رہے گی، اور اگر ہم نے غلبہ پالیا تو اور عورتیں مل جائیں گی اور اولاد بھی پیدا ہوجائے گی، یہ بات سن کر اس کی قوم کے لوگ بولے کہ ان مسکینوں کو اگر ہم قتل کردیں تو ان کے بعد زندگی کا کیا مزہ ہے ؟ کعب بن اسد نے کہا تیسری صورت یہ ہے کہ آج لیلۃ السبت ہے یعنی سنیچر کی رات ہے، قلعوں سے اتر کر ہم محمد ﷺ اور ان کے اصحاب پر چپکے سے حملہ کردیں، ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سمجھ کر ہمارے حملہ سے غافل ہوں کہ آج لیلۃ السبت ہے ہم ان پر حملہ نہ کریں گے، کعب بن اسد کی یہ رائے بھی ان کی قوم نے قبول نہیں کی اور کہنے لگے کہ ہم سنیچر کے دن کو کیوں خراب کریں۔ اس کے بعد بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس ابو لبابہ ؓ کو بھیج دیجیے، یہ انصاری صحابی تھی، ان کا قبیلہ زمانہ جاہلیت میں بنو قریظہ کا حلیف تھا، یہود بنو قریظہ نے انہیں مشورہ لینے کے لیے طلب کیا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھیج دیا، جب یہود کی ان پر نظر پڑی تو ان کی عورتیں اور بچے ابولبابہ کے سامنے رونے لگے، یہودیوں نے ان سے مشورہ لیا کہ آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا ہم محمد ﷺ کے فیصلہ پر قلعے سے نیچے اتر آئیں ؟ حضرت ابولبابہ ؓ نے رائے تو دے دی کہ ہاں اتر آؤ اور ساتھ ہی اپنے حلق کی طرف اشارہ کردیا یعنی یہ بتادیا کہ تم ذبح کردئیے جاؤ گے، اشارہ تو کردیا لیکن اسی وقت دل میں یہ بات آگئی کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خیانت کی ہے، یہ سوچا اور سیدھے مسجد نبی میں حاضر ہوئے اور مسجد کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہ فرمائے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ سورة الانفال کی آیت : (یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) کا سبب نزول حضرت ابولبابہ ؓ ہی کا واقعہ ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچنے میں دیر ہوئی اور آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو آپ نے فرمایا اگر وہ میرے پاس آجاتا تو میں اس کے لیے اللہ سے استغفار کردیتا، اب اس نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے تو اب میں نہیں کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول نہ فرمائے۔ چھ دن تک وہ ستون سے بندھے رہے، ہر نماز کے وقت ان کی بیوی آتی تھی اور نماز کے لیے کھول دیتی تھی، نماز سے فارغ ہو کر وہ پھر اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیتے تھے، اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کی توبہ کے بارے میں سورة توبہ کی آیت (وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّءًا عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) جب ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان ہوگیا (جو سحر کے وقت ہوا تھا) تو لوگ انہیں کھولنے کے لیے دوڑے، انہوں نے کہا کہ میں تمہارے ہاتھوں سے نہیں کھلوں گا رسول اللہ ﷺ ہی کھولیں گے تو میں کھلنا منظور کروں گا پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے تو ان کو کھول دیا۔ بنو قریظہ طول محاصرہ سے بلبلا اٹھے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اب مقابلہ کا کوئی راستہ نہیں تو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر راضی ہوگئے یعنی یہ کہلوا بھیجا کہ آپ جو بھی فیصلہ فرمائیں ہمیں منظور ہے۔ جب وہ لوگ آپ کے فیصلے پر راضی ہوگئے تو قبیلہ اوس کے اشخاص آگے بڑھے (جو انصار میں سے تھے) انہوں نے عرض کیا کہ یہ ہمارے حلیف تھے ان کا معاملہ ہمارے سپرد فرما دیجیے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ تم میں سے ایک شخص کے سپرد نہ کردوں ؟ کہنے لگے کہ جی ٹھیک ہے، آپ نے فرمایا میں ان کا فیصلہ سعد بن معاذ ؓ کے سپرد کرتا ہوں۔ (حضرت سعد بن معاذ ؓ قبیلہ بنی اوس کے سردار تھے۔ ) پہلے گذر چکا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ دشمنوں کے مقابل اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ جبل سلع کے قریب قیام پذیر تھے اور مقابلہ تقریباً ایک ماہ تک تھا اس وقت حضرت سعد بن معاذ ؓ کی ایک رگ میں (جسے عربی میں اکحل کہتے ہیں) ایک تیر آکر لگا جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوگئی انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ زخم جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک بنی قریظہ کا انجام دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوجائیں، رسول اللہ ﷺ نے انہیں رفیدہ نامی ایک عورت کے خیمہ میں ٹھہرا دیا تھا جب آپ نے ان کو بنی قریظہ کا فیصلہ سپرد فرما دیا تو انہیں بلایا۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ان کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ اپنے سید کے لیے کھڑے ہوجاؤ (چونکہ وہ مریض تھے اور انہیں سواری سے اتارنے کی ضرورت تھی اس لیے آپ ﷺ نے کھڑے ہونے کا اور ان کی مدد کرنے کا حکم فرمایا) رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہود بنی قریظہ تمہارے فیصلہ پر راضی ہوگئے ہیں (راضی تو ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر، پھر جب انصار کے قبیلہ بنی اوس نے کہا کہ ان کا معاملہ ہمارے سپرد کردیجیے تو آپ ﷺ نے سعد بن معاذ ؓ کے سپرد فرما دیا، اس سے یہود بھی خوش ہوئے کیونکہ یہ ان کے حلفاء میں سے تھے اور خود ان کے اپنے قبیلہ کے لوگ بھی خوش ہوئے اور ان سے کہتے رہے کہ اپنے حلفاء کے بارے میں اچھا فیصلہ کرنا) حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ جو لوگ جنگ کرنے کے لائق ہیں ان سب کو قتل کردیا جائے اور مال تقسیم کردیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے، جب انہوں نے اپنا یہ فیصلہ دے دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے وہ فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کے بازار میں خندقیں کھودی گئیں، بنو قریظہ کی جماعتیں وہاں پہنچائی جاتی رہیں اور ان کی گردنیں ماری جاتی رہیں، ان مقتولین میں حی بن اخطب بھی تھا اور کعب بن اسد بھی، جو بنو قریظہ کا سردار تھا جس نے بنو قریظہ پر تین باتیں پیش کی تھیں ان کی پیشکش پر قوم مسلمان نہ ہوئی تو اس نے بھی اسلام قبول نہ کیا۔ یاد رہے کہ حی ابن اخطب وہی شخص ہے جو اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ معظمہ پہنچا تھا اور قریش مکہ اور بنو غطفان کو مدینہ منورہ پر چڑھائی کرنے پر آمادہ کیا تھا اور اسی نے کعب بن اسد کو نقض عہد پر آمادہ کیا تھا اور آخر میں یوں کہا تھا کہ اگر ان جماعتوں کو شکست ہوئی، جو باہر سے آئی ہیں تو میں بھی تیرے ساتھ قلعہ میں داخل ہوجاؤں گا اور جو مصیبت تم لوگوں کو پہنچے گی میں بھی اس میں شریک رہوں گا، اسی عہد کی وجہ سے وہ واپس خیبر نہیں گیا جہاں بنی نضیر کو جلا وطن کردیا گیا تھا اور بنی قریظہ کے ساتھ یہ بھی مقتول ہوا۔ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ طاہرہ حضرت صفیہ ؓ کا والد بھی تھا جنہیں 7 ہجری میں غزوۂ خیبر کے موقع پر قید کرکے لایا گیا تھا۔ بنی قریظہ میں سے صرف ایک عورت کو قتل کیا گیا اور باقی جو مقتولین تھے حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فیصلہ کے مطابق سب مرد تھے، جس عورت کو قتل کیا گیا اس نے حضرت خلاد بن سوید ؓ پر چکی کا پاٹ گرا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ شہید ہوگئے تھے، بنی قریظہ میں سے حضرت عطیہ قرظی کو بھی قتل نہیں کیا گیا کیونکہ وہ اس وقت تک بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ جس کے زیر ناف بال نکل آئے ہوں اسے بالغ سمجھا جائے اور قتل کردیا جائے اور جس کے بال نہ نکلے ہوں اسے قتل نہ کیا جائے۔ حضرت عطیہ قرظی ؓ نے بتایا کہ میرے بال اگنے کی جگہ پر نظر ڈالی گئی تو دیکھا کہ میرے بال نہیں نکلے ہیں لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا اور قیدیوں میں شامل کردیا گیا یہ بات انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بتائی تھی۔ بنی قریظہ کے کتنے افراد قتل کیے گئے ؟ اس میں تین قول ہیں (1) چھ سو (2) سات سو (3) آٹھ اور نو سو کے درمیان۔ یہود میں سے چند ایسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا جو نہ بنی قریظہ میں سے تھے اور نہ بنی نضیر میں سے تھے، جس رات بنی قریظہ نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہونے کا اعلان کیا اسی وقت یہ لوگ مسلمان ہوئے، ان کے نام یہ ہیں : ثعلبہ بن سعید، اسد بن سعید، اسد بن عبید، یہ لوگ بنی بحدل میں سے تھے۔ بنی قریظہ کے مردوں کو رسول اللہ ﷺ نے قتل فرما دیا اور ان کے مال اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مال غنیمت بنا کر مجاہدین میں تقسیم فرما دیا اور ان کے اموال سے خمس یعنی 5/1 نکال دیا جیسا کہ مال غنیمت تقسیم کرنے کا طریقہ ہے۔ بنی قریظہ میں سے جن بچوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا تھا ان میں سے بعض کو نجد کی طرف بھیج دیا، حضرت سعد بن زید انصاری ؓ آپ ﷺ کے حکم سے انہیں لے گئے اور انہیں بیچ کر گھوڑے اور ہتھیار خرید لیے تاکہ جہاد میں مسلمانوں کے کام آئیں۔ جب بنی قریظہ کا معاملہ ختم ہوا یعنی انہیں قتل کردیا گیا تو حضرت سعد بن معاذ ؓ کا زخم جاری ہوگیا اور خون بہتا رہا جو ان کی موت کا ظاہری سبب بن گیا، چونکہ یہ زخم انہیں جہاد کے موقع پر تیر لگنے کی وجہ سے آگیا تھا اس لیے ان کی یہ موت شہادت کی موت ہوئی۔ حضرت سعد ؓ کا بدن بھاری تھا جب ان کا جنازہ اٹھا کرلے جانے لگے تو ہلکا محسوس ہوا، بعض لوگوں نے کہا کہ اس شخص کا بدن تو بھاری تھا جنازہ اتنا ہلکا کیوں ہے ؟ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا جنازہ کو اٹھانے والی تمہارے علاوہ دوسری مخلوق بھی تھی، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے فرشتوں کو سعد ؓ کی روح پہنچنے پر خوشی ہوئی اور ان کے لیے عرش بھی متحرک ہوگیا۔ حضرت جابر ؓ نے بیان کیا کہ ہم سعد بن معاذ ؓ کی وفات کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی پھر جب انہیں دفن کردیا گیا تو آپ ﷺ نے دیر تک تسبیح پڑھی پھر تکبیر پڑھی، اس پر ہم نے بھی تکبیر پڑھی اور عرض کیا کہ آپ نے پہلے تسبیح پڑھی پھر تکبیر پڑھی اس کی کیا وجہ تھی ؟ آپ نے فرمایا اس نیک بندہ پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی (میں برابر تسبیح پڑھتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مشکل دور فرما دی) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے لیے عرش متحرک ہوا اور آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے، قبر میں اس کو کچھ دبایا گیا پھر تکلیف دور کردی گئی۔ (جب حضرت سعد بن معاذ ؓ کو زمین نے دبایا جو شہید ہوگئے تھے تو دوسرے لوگ اپنے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور گناہوں میں لت پت ہیں۔ ) غزوۂ بنی قریظہ کا مفصل قصہ بیان کردیا گیا ہے جو سیرت ابن ہشام سے ماخوذ ہے، ان میں سے بعض چیزیں کتب حدیث میں بھی ملتی ہیں۔ تفصیل کے ساتھ پورا واقعہ پڑھنے کے بعد آیت بالا کے ترجمہ پر دوبارہ نظر ڈال لیں۔ ممکن ہے بعض قارئین کو یہ اشکال ہو کہ بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو معاہدہ کر رکھا تھا اسے انہوں نے توڑ دیا تھا جس کی سزا پائی لیکن ابو سفیان نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ قریش وغیرہ کے ساتھ جو عہد کیا تھا بنو قریظہ اس عہد کو توڑ چکے ہیں حالانکہ (مِّنْ فَوْقِکُمْ ) کی تفسیر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اوپر کی جانب سے بنی قریظہ آگئے تھے اور ان لوگوں کو حی بن اخطب نے اپنے ساتھ ملانے اور مسلمانوں سے جنگ کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو قریظہ قریش کے ساتھ تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ بنی قریظہ نے قریش مکہ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے کا وعدہ تو کرلیا تھا لیکن نعیم بن مسعود ؓ کی ایک تدبیر سے بنو قریظہ مشرکین مکہ اور ان کے ساتھیوں کی امداد سے بھی پھرگئے تھے، ہوا یہ کہ نعیم بن مسعود ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے لیکن میری قوم کو اس کا پتہ نہیں ہے آپ مجھے جو کچھ حکم فرمائیں میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کوئی ایسی صورت نکالو جس سے یہ جماعتیں ایک دوسرے کی مدد سے منحرف ہوجائیں۔ حضرت نعیم بن مسعود ؓ بنی قریظہ کے پاس گئے جاہلیت میں تو ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا تھا ان سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے میری تمہاری کیسی دوستی ہے اور کیسے خصوصی تعلقات ہیں ؟ بنو قریظہ نے جواب میں کہا کہ واقعی تم ہمارے دوست ہو ہم اس بات کو مانتے ہیں اس پر ان سے فرمایا کہ دیکھو قریش اور بنی غطفان تمہاری طرح سے نہیں ہیں تم شہر مدینہ میں رہتے ہو اس میں تمہارے اموال ہیں، بچے ہیں، عورتیں ہیں، اس شہر کو چھوڑ کر تم کہیں نہیں جاسکتے، رہے قریش اور بنی غطفان سو وہ محمد رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے آئے ہیں اور تم ان کی مدد کر رہے ہو، اب دیکھو بات یہ ہے کہ انہیں اگر موقع مل گیا تو غلبہ پالیں گے اور اگر شکست ہوگئی تو اپنے شہروں کو چلے جائیں گے، اس کے بعد تم بےیارو مددگار رہ جاؤ گے، اور محمد رسول اللہ ﷺ سے مقابلہ کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے، لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم قریش مکہ سے یوں کہو کہ تم لوگ اپنے سرداروں کو بطور رہن ہمارے پاس چھوڑ دو ، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہ لوگ تمہیں چھوڑ کر بھاگ نہ سکیں گے انہیں اپنے آدمیوں کی فکر لاحق ہوگی، یہ بات سن کر بنو قریظہ نے کہا واقعی تمہاری رائے تو ٹھیک ہے۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود ؓ قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ یہودی اس بات پر پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے تمہارا ساتھ دینے کا وعدہ کیوں کرلیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو معاہدہ تھا وہ توڑ دیا، اب انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس خبر بھیجی ہے کہ آپ ہم سے اس بات پر راضی ہوجائیں کہ ہم قریش اور بنی غطفان کے سرداروں پر قبضہ کرکے آپ کے پاس بھیج دیں اور آپ ان کی گردنیں مار دیں اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کو بالکل ہی ختم کردیں گے، اور ساتھ ہی قریش اور بنی غطفان سے یہ بھی کہا کہ دیکھو اگر یہودی تم سے یہ مطالبہ کریں کہ بطور رہن ہمیں اپنے آدمی دے دو تو تم بات مت ماننا اور انہیں اپنا ایک آدمی بھی نہ دینا پھر حضرت نعیم بن مسعود ؓ بنی غطفان کے پاس آئے اور ان سے بھی یہی کہا کہ دیکھو تمہارے سرداروں میں سے یہودی بطور رہن کچھ افراد طلب کریں گے تم اپنا ایک شخص بھی ان کے حوالے نہ کرنا۔ اس کے بعد ابو سفیان نے اور بنی غطفان کے چودھریوں نے بنی قریظہ کے پاس عکرمہ بن ابی جہل کو قریش و غطفان کے چند افراد کے ساتھ پیغام دے کر بھیجا انہوں نے یہود سے کہا کہ دیکھو ہمارے ٹھہرنے کا موقع نہیں رہا، ہمارے پاس جو اونٹ اور گھوڑے تھے وہ ہلاک ہوچکے ہیں، آؤ صبح صبح سب مل کر یکبارگی محمد ﷺ پر حملہ کردیں اور معاملہ کو نمٹا دیں، یہودیوں نے جواب میں کہا کہ ہم اس وقت تک تمہارا ساتھ نہیں دیں گے جب تک تم اپنے چند آدمی بطور رہن ہمیں نہ دے دو ، جب تمہارے آدمی ہمارے ساتھ ہوں گے تو ہمیں بھروسہ رہے گا، ہمیں ڈر ہے کہ تم لوگ لڑائی میں شکست کھا گئے تو ہمیں چھوڑ کر اپنے شہروں کو بھاگ جاؤ گے، جب یہ لوگ بنی قریظہ کا جواب لے کر قریش اور بنی غطفان کے پاس واپس پہنچے تو کہنے لگے کہ واقعی نعیم بن مسعود ؓ نے سچ کہا تھا کہ بنو قریظہ تم سے بطور رہن آدمی طلب کریں گے، اس پر قریش اور بنی غطفان نے بنی قریظہ کو ٹکا سا جواب بھجوا دیا کہ ہم اپنا ایک شخص بھی تمہیں نہیں دیں گے، لہٰذا بنو قریظہ نے جواب دے دیا کہ ہم اس کے بغیر محمد ﷺ سے جنگ نہیں کرسکتے لہٰذا اب صورت حال یہ پیدا ہوگئی کہ بنو قریظہ نے وہ معاہدہ بھی توڑ دیا جو رسول اللہ ﷺ سے کر رکھا تھا اور قریش و بنی غطفان کی مدد سے بھی دستبردار ہوگئے اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی تلوار کی زد سے بھی نہ بچ سکے۔ نعیم بن مسعود ؓ کی یہ تدبیر ابن ہشام ؓ نے لکھی ہے، اور حافظ ابن کثیر ؓ نے بھی ” البدایہ والنہایہ “ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ (قولہ تعالیٰ : (مِنْ صَیَاصِیْھِم) ای من حصونھم جمع صیصیۃ وھی کل ما یمتنع بہ ویقال لقرن الثور والظباء ولشوکۃ الدیک التی فی رجلہ کالقرن الصغیر، وتطلق الصیاصی علی الشوک الذی للنساجین ویتخذ من حدید) (روح المعانی) (اللہ تعالیٰ کا قول (مِنْ صَیَاصِیْھِمْ ) یعنی ان کے قلعوں سے یہ صیصیۃ کی جمع ہے اور یہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو رکاوٹ بنے اور بیل کے سینگ، مرغ کے ناخن کو بھی کہا جاتا ہے گویا کہ وہ چھوٹا سینگ ہے اور صیاصی کا لفظ لوہے کے اس کانٹے پر بھی بولا جاتا ہے جو کپڑا بننے والوں کے پاس ہوتا ہے۔ )
Top