Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم دنیا والی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں فائدہ پہنچا دوں اور تمہیں خوبی کے ساتھ چھوڑ دوں۔
رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ کو نصائح ضروریہ۔ آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ سے عَظِیْمًا) تک کا سبب نزول حضرات مفسرین کرام نے یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ نے آپ ﷺ سے کچھ زیادہ خرچہ ملنے کی درخواست کی، اس وقت آپ ﷺ کی نو بیویاں تھیں۔ (1) عائشہ بنت ابوبکر صدیق۔ (2) حفصہ بنت عمر۔ (3) ام حبیبہ بنت ابی سفیان۔ (4) ام سلمہ بنت ابی امیہ۔ (5) سودہ بنت زمعہ۔ (6) زینب بنت جحش۔ (7) میمونہ بنت حارث۔ (8) صفیہ بنت حی بن اخطب۔ (9) جویریہ بنت حارث۔ رسول اللہ ﷺ کو ان کا یہ مطالبہ اچھا نہ لگا (بڑوں کی بڑی باتیں ہیں، وہ سید الاولین والآخری نبی ﷺ کی بیویاں تھیں انہیں آپ کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہنا چاہیے تھا اور بعض مرتبہ جو فاقہ کی نوبت آجاتی تھی اس کو درجات کی بلندی کے لیے برداشت کرنا چاہیے تھا اور خرچہ کا سوال زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے خرچہ کا سوال کیا تو آپ نے قسم کھالی کہ ایک مہینہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا، حضرات صحابہ میں یہ مشہور ہوگیا کہ آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ میں اس کی خبر لاتا ہوں، انہوں نے خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ وہاں مسلمان موجود ہیں اور یوں کہہ رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، آپ نے فرمایا میں نے طلاق نہیں دی، عرض کیا تو کیا میں مسلمانوں کو یہ بات بتادوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا چاہو تو بتادو ! حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر پکار کر اعلان کردیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی۔ جب انتیس دن گزر گئے تو آیت تخییر یعنی (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ ) (آخر تک) نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ تم دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دنیا کا سامان دے دیتا ہوں اور ساتھ ہی تمہیں خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دوں گا یعنی اپنے نکاح میں نہیں رکھوں گا اور اگر تم اللہ کو اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کی طلبگار ہو تو تم سمجھ لو کہ اللہ نے نیک کام کرنے والی عورتوں کے لیے اجر عظیم تیار فرمایا ہے، یعنی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ زندگی گزارتی رہو، اچھے اعمال کرتی رہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے گا (اس صورت میں رسول اللہ ﷺ کی جدائی کا کوئی مسئلہ نہیں) جب آیت تخییر نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے آیت شریفہ کے مضمون کے مطابق اپنی بیویوں کو اختیار دے دیا کہ اگر چاہو تو دنیا کا سامان لے لو اور ساتھ ہی یہ سمجھ لو کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور اگر چاہو تو میرے ہی پاس رہو لیکن اس صورت میں مطلوبہ اخراجات کا کوئی وعدہ نہیں، ہاں یہ وعدہ ہے کہ نیک کام کرتی رہو گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرتا ہوں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کرلو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا (آپ کو معلوم تھا کہ ان کے والدین انہیں رسول اللہ ﷺ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے) یہ فرما کر آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو دونوں آیتیں سنا دیں جن میں اختیار دینے کا مضمون ہے، حضرت عائشہ ؓ بہت سمجھدار اور مزاج شناس نبوت تھیں فوراً عرض کیا کیا میں آپ ﷺ کے بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لوں گی ؟ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں اور ساتھ ہی یوں بھی عرض کیا کہ آپ ﷺ دوسری بیویوں میں کسی کو میرے جواب سے مطلع نہ فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ نے مجھے تکلیف میں ڈالنے والا اور تکلیف میں پڑنے والا بناکر نہیں بھیجا مجھے تو سکھانے والا اور سہولت کا طریقہ بتانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد آپ نے باقی آٹھ ازواج مطہرات کے سامنے بھی آیت بالا کا مضمون پیش فرمایا ان سب نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہیں۔ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے تو یہ قسم کھائی تھی کہ پورے ایک ماہ ہمارے ہاں تشریف نہیں لائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا تھا، انتیس دن گزر گئے نیا مہینہ شروع ہوگیا۔ جب آپ کی تمام بیویوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرلیا تو آپ کے چہرۂ انور پر خوشی کے انوار ظاہر ہوگئے اور آپ ﷺ نے ان کی قدر دانی فرمائی۔ (معالم التنزیل 3: ص 525، 526، صحیح بخاری ج 2 ص 705، صحیح مسلم ص 480 تا 482) فائدہ : بیوی کو اگر طلاق کا اختیار دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے، اگر وہ چاہے تو اپنے اوپر طلاق واقع کرکے آزاد ہوجائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ مرد طلاق کو اپنے ہی ہاتھ میں رکھے اور عورت سے یوں کہے کہ اگر تو چاہے تو میں تجھے طلاق دے دوں۔ رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا وہ یہی دوسری صورت تھی یعنی بطور مشورہ ایک بات پیش فرمائی تھی، اگرچہ بعض اکابر نے فرمایا کہ آیت کے سیاق میں دونوں کا احتمال ہے، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ رہنا منظور کرلیا اور آپ کی زوجیت اختیار کرلی، اور آپ ﷺ کا اختیار دے دینا کسی بھی طلاق میں شمار نہیں کیا گیا۔ آئمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ محض اختیار دے دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ صحیح مسلم میں تخییر کو طلاق میں شمار نہیں کیا گیا، اس کے ذیل میں امام نووی ؓ لکھتے ہیں : فی ھذا الاحادیث دلالۃ المذھب مالک والشافعی وابی حنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء زوجتہ فاختارتہ لم یکن ذٰلک طلاقاً ولا یقع بہ فرقۃ وروی عن علی وزید بن ثابت والحسن واللیث بن سعد ان نفس التخییر یقع بہ طلقۃ بائنۃ سواء اختارت زوجھا ام لا وحکاہ الخطابی والنقاش عن مالک قال القاضی لا یصح ھذا عن مالک ثم ھو مذھب ضعیف مردود بھذا والاحادیث الصریحۃ وبعل القائلین بہ لم تبلغھم ھذہ الاحادیث۔ واللّٰہ اعلم۔ ” ان احادیث میں حضرت امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء کے مذہب کے دلیل ہے اگر کسی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا تو محض یہ اختیار دینا طلاق نہیں ہوگا اور نہ اس سے فرقت ہوتی ہے۔ حضرت علی، حضرت زید، حضرت حسن اور حضرت لیث بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ نفس تخییر سے طلاق بائنہ واقع ہوجاتی ہے خواہ عورت نے اپنے آپ کو اختیار کیا ہو یا نہ کیا ہو اور اس بات کو خطابی اور نقاش نے امام مالک سے نقل کیا ہے۔ قاضی فرماتے ہیں حضرت امام مالک سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ پھر یہ کہ یہ مذہب ضعیف ہے اور ان مذکورہ صریح احادیث کی وجہ سے مردود ہے۔ شاید اس مذہب کے قائلین کو یہ احادیث نہیں پہنچیں۔ “ حنفیہ میں سے صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ کوئی شخص طلاق کی نیت سے اپنی بیوی سے اِخْتَارِیْ (تو اختیار کرلے) کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ تو اپنے نفس کو طلاق دیدے تو جب تک وہ اپنی مجلس میں رہے گی اسے طلاق دینے کا اختیار رہے گا، اگر مجلس سے اٹھ گئی یا وہیں بیٹھے بیٹھے کسی کام میں لگ گئی (جس سے اعراض سمجھا جاتا ہو) تو اس کے ہاتھ سے اختیار جاتا رہا، اگر اِخْتَارِیْ کے جواب میں (جبکہ شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا ہو) عورت نے یوں کہہ دیا کہ اخترت نفسی (میں اپنی جان کو اختیار کرتی ہوں) تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ (باب تفویض الطلاق)
Top