Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے نبی بیشک ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا
رسول اللہ ﷺ کی صفات جمیلہ : یہ چار آیات کا ترجمہ ہے، پہلی دو آیتوں میں رسول اللہ ﷺ کی صفات بیان فرمائی ہیں اور تیسری آیت میں آپ کو بشارت دینے کا حکم دیا ہے اور چوتھی آیت میں کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننے کا اور ان سے جو تکلیفیں پہنچیں ان کی طرف دھیان نہ دینے کا اور اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اول تو یوں فرمایا ہے (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا) کہ اے نبی ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے، شاہد گواہ کو کہتے ہیں، سورة بقرہ میں فرمایا ہے (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) (اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنا دیا جو اعتدال والی ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوجائے) اور سورة نساء میں فرمایا (فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا) (سو کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ ﷺ کو ان پر گواہ بنائیں گے) اور سورة حج میں فرمایا (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ) (تاکہ رسول تم پر گواہ ہوجائے اور تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بن جاؤ۔ ) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ آپ قیامت کے دن اپنے سے پہلی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے، سورة بقرہ اور سورة نساء کی آیات کے ذیل میں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کی مراجعت فرما لیں۔ (انوار البیان جلد دوم) پھر فرمایا (وَّمُبَشِّرًا) کہ آپ کو بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، اہل ایمان کو ایمان کے منافع اور اعمال صالحہ کے اجر وثواب کی خوشخبری دینا آپ کے کار مفوضہ میں شامل ہے۔ وَّ نَذِیْرًا اور آپ کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ جیسا کہ اہل ایمان کو بشارت دینا آپ کے فرائض منصبی میں سے ہے اسی طرح اہل کفر اور اہل معصیت کو ڈرانا اور وعیدیں سنانا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ذمہ کیا گیا ہے۔ عرب و عجم کے لیے، تمام ادیان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجا، سورة سباء میں ارشاد فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا) (اور ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا) رسول اللہ ﷺ نے تمام انسانوں کو اور تمام اہل ادیان کو ایمان قبول کرنے پر آخرت کی بھلائی کی بشارت دی اور ایمان سے منحرف اور منکر ہونے پر آخرت کے عذاب سے باخبر فرمایا، یہود و نصاریٰ بھی اسی میں شامل ہیں جو اپنے پاس دین سماوی ہونے کے مدعی ہیں، سورة مائدہ میں فرمایا : (یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ رسول آپہنچے جو کہ تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا تاکہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر اور نذیر نہیں آیا سو تمہارے پاس بشیر اور نذیر آچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔ ) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو بشیر اور نذیر کی صفات عظیمہ سے متصف فرمایا ہے اور آپ ﷺ کو شاہد بھی بتایا ہے، توریت شریف میں بھی آپ ﷺ کی یہ صفات بیان فرمائی گئی ہیں۔ صحیح بخاری جلد 1 ص : 285 میں حضرت عطا بن یسار سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ توریت میں جو رسول اللہ ﷺ کی صفت بیان کی گئی ہے اس سے مجھے باخبر فرمائیے، انہوں نے فرمایا جو آپ کی صفات قرآن شریف میں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض صفات توریت میں مذکور ہیں۔ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا) اے نبی ہم نے آپ کو گواہ بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔ (یہ الفاظ قرآنیہ کا ترجمہ ہے) اور توریت میں مزید یہ باتیں بھی ہیں کہ آپ ﷺ کو امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بناکر بھیجا، تو میرا بندہ ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا تو درشت خو اور سخت مزاج نہیں ہے اور بازاروں میں شور مچانے والا نہیں اور جو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا لیکن معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جب تک کہ اس کے ذریعہ کجی والی ملت کو سیدھی نہ کردے اس طرح سے کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں اور اس کے ذریعے ان کی اندھی آنکھوں کو کھول دے گا اور بہرے کانوں کو اور غلاف چڑھے ہوئے قلوب کو کھول دے گا۔
Top