Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان والو تم بھی آپ ﷺ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے مسلمانو ! تم بھی نبی پر صلوٰۃ وسلام بھیجا کرو اصل مقصود آیت کا مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ وسلام بھیجا کریں مگر اس کی تعبیر وبیان میں یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ پہلے حق تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مؤمنین کو اس کا حکم دیا جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو مزید بلند فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کا جو حکم مسلمانوں کو دیا جاتا ہے وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں عام مؤمنین جن پر رسول اللہ ﷺ کے بیشمار احسانات ہیں ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود وسلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام میں شریک فرما لیا جو کام حق تعالیٰ خود بھی کرتے ہیں اور اس کے فرشتے بھی۔ آیت شریفہ میں لفظ (یُصَلُّوْنَ ) وارد ہوا ہے جس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے کہ بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر رحمت بھیجتے ہیں۔ لفظ (یُصَلُّوْنَ ) صلوٰۃ سے ماخوذ ہے، مفسرین و محدثین نے فرمایا ہے کہ لفظ صلوٰۃ عربی زبان میں چند معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ رحمت، دعا، مدح وثناء پھر جس کی طرف صلوٰۃ منسوب ہوگی اس کی شان اور مرتبہ کے مناسب ثنا، تعظیم اور رحمت و شفقت مراد لیں گے، جیسا کہا جاتا ہے کہ با پ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے اور بھائی بھائی سے محبت کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ جو محبت باپ کو بیٹے سے ہے بیٹے کو باپ سے اس طرح کی محبت نہیں ہے۔ نیز بھائی بھائی کی محبت اور باپ بیٹے کی محبت جدا ہوتی ہے لیکن محبت سب کو ہی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح صلوٰۃ کو سمجھ لو کہ اللہ جل شانہٗ نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں اور فرشتے بھی اور عام مؤمنین بھی، مگر سب کے صلوٰۃ کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کی شان کے مناسب صلوٰۃ کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ اللہ جل شانہٗ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار ہے اور مومنوں کی صلوٰۃ دعائے رحمت ہے ہر ایک میں مدح وثناء اور تعظیم و توقیر کے معنی ملحوظ ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی عظمت اور توقیر یہ ہے کہ آپ کا ذکر بلند فرمایا اور آپ کے دین کو غالب کیا اور قیامت تک اس کو باقی رکھا اور آخرت میں آپ ﷺ کی عظمت اور توقیر یہ ہے کہ آپ کو شفاعت کبریٰ نصیب فرمائی اور مقام محمود عطا فرمایا اور تمام مقربین اور اولین و آخرین پر آپ کی فضیلت ظاہر فرمائی۔ اور لفظ سلام مصدر بمعنی السلام ۃ ہے اور مراد اس سے نقائص و عیوب اور آفتوں سے سالم رہنا ہے، سلام معنی ثناء کو متضمن ہے اس لیے حرف علی کے ساتھ (عَلَیْکَ یا عَلَیْکُمْ ) کہا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے یہاں لفظ سلام سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات لی ہے کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے تو مراد السلام علیک سے یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت اور رعایت کا متولی اور کفیل ہے۔ (از روح المعانی) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے مومنوں کو حکم دیا کہ سرور عالم ﷺ پر درود بھیجا کریں علمائے امت کا ارشاد ہے کہ اس صیغہ امر (صَلُّوْا) کی وجہ سے عمر بھر میں ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا فرض ہے، اور اگر ایک مجلس میں کئی بار آنحضرت ﷺ کا ذکر مبارک کرے یا سنے تو ذکر کرنے اور سننے والے پر حضرت امام طحاوی ؓ کے نزدیک ہر بار درود شریف پڑھنا واجب ہے مگر فتویٰ اس پر ہے کہ ایک بار واجب ہے پھر مستحب ہے، احتیاط اسی میں ہے کہ ہر بار درود شریف پڑھے اور آقائے دو جہاں ﷺ کی محبت کا ثبوت دے۔ یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَاءِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِیْبکَ منْ زَانَتَ بِہِ الْعُصَرُ اس آیت میں لفظ صلوٰۃ وارد ہوتا ہے جس کی تشریح یہ ہے کہ صلوٰۃ علی النبی کے معنی یہ ہیں کہ شفقت و رحمت کے ساتھ نبی ﷺ کی ثناء کی جائے، پھر جس کی طرف صلوٰۃ منسوب ہوگی اس کی شان اور مرتبہ کے مناسب ثناء تعظیم اور رحمت و شفقت مراد لیں گے۔ درود شریف کے فضائل : سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنا بہت بڑی فضیلت والا عمل ہے، قرآن مجید میں حکم فرمایا ہے (جیسا کہ آیت بالا میں نظروں کے سامنے) اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی بہت سی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ صحیح مسلم جلد 1 : ص 166 میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ جل شانہٗ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ سنن نسائی میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دس درجات بلند فرماتے ہیں اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس کے دس گناہ (نامہ اعمال سے) مٹا دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بہت سے فرشتے زمین میں گشت لگاتے پھرتے ہیں اور مجھ کو میری امت کا سلام پہنچا دیتے ہیں۔ نیز ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو عید مت بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو کیونکہ تمہارا درود میرے پاس پہنچ جاتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔ (یہ سب روایات مشکوٰۃ المصابیح ص 82 ” باب صلوٰۃ علی النبی و فضلہا “ سے لی گئی ہیں) ” گھروں کو قبریں مت بناؤ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قبریں عبادت سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح گھروں کو عبادت سے خالی مت رکھو بلکہ نفل نمازیں ادا کرتے رہو ” میری قبر کو عید مت بناؤ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عید کے روز زیب وزینت کے ساتھ خصوصی اجتماع ہوتا ہے میری قبر کی اس طرح زیارت نہ کرو بلکہ توقیر و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے حاضری دو ، آپ ﷺ کا دربار کوئی معمولی دربار نہیں ہے کہ وہاں ہنستے ہوئے جاؤ بلکہ وہ تو شاہ دو جہاں سید الانبیاء ﷺ کا در اطہر ہے، اس کی توقیر و عظمت دل میں لے کر حاضر ہونا چاہیے۔ عبد اللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ جو کوئی ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس شخص پر ستر رحمتیں بھیجتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 87) ملا علی قاری ؓ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ یہ (یعنی ایک ایک درود کے بدلے میں ستر رحمتیں نازل فرمانا) غالباً جمعہ کے روز کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ بعض اوقات اعمال کا ثواب وقت کی فضیلت و عظمت کی وجہ سے بڑھا دیا جاتا ہے، لہٰذا جمعہ کے روز دس رحمتوں کی بجائے ستر رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تمہارے دنوں میں سب دنوں سے بہتر جمعہ کا دن ہے، اسی روز آدم پیدا کیے گئے اور اسی روز انہوں نے وفات پائی، جمعہ کے روز ہی صور پھونکا جائے گا۔ اور جمعہ ہی کے روز صور کی آواز سن کر مخلوق بےہوش ہوگی، چونکہ جمعہ کا دن سب سے افضل ہے اس لیے اس روز مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ (ابو داؤد جلد 1: ص 150) ارشاد فرمایا رسول خدا نے کہ جو بھی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں اب اختیار ہے کہ کوئی بندہ مجھ پر زیادہ درود بھیجے یا کم۔ (ابن ماجہ) مطلب یہ ہے کہ کثرت سے درود بھیجا کرو جیسا کہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں عمل اچھا ہے آگے اختیار ہے کوئی کم کرے یا زیادہ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور رسول خدا موجود تھے آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر ؓ بھی تھے۔ جب میں نماز پڑھ کر بیٹھا تو اللہ کی تعریف بیان کی پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا، بعد میں اپنے لیے دعا کی، یہ ماجرا دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مانگ جو مانگے گا ملے گا۔ (ترمذی) حضرت فضالہ بن عبید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھ کر اس نے دعا شروع کردی اور کہا ” اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تو نے دعا کرنے میں جلدی کی، آئندہ کے لیے یاد رکھ کہ جب تو نماز پڑھ چکے تو بیٹھ کر اللہ کی حمد بیان کر جیسی اس کی ذات کے لائق ہے پھر مجھ پر درود بھیج پھر اللہ سے دعا کر۔ فضالہ بن عبید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر تیری دعا قبول ہوگی۔ (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعاء کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے پھر اللہ سے دعا کرے، دعا کے قبول ہونے میں درود شریف کو بڑا دخل ہے حتیٰ کہ حضرت عمر ؓ سے منقول ہے کہ جب تک آنحضرت ﷺ پر درود نہ پڑھا جائے دعا آسمان و زمین کے درمیان لٹکی رہتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 78) اہل معرفت نے فرمایا کہ درود شریف کے علاوہ جو دوسرے اذکار و عبادات ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کا ثواب نہ دیا جائے لیکن درود شریف ہمیشہ مقبول ہی ہوتا ہے، جب دعا کرے تو دعا سے پہلے بھی درود شریف پڑھے اور دعا کے اخیر میں بھی۔ اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے جب دونوں درودوں کو قبول فرمائے گا تو درمیان میں جو دعا واقع ہوگی اسے بھی قبول فرمائے گا۔ (ذکرہ فی الحصن) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا باعث ہوگی۔ اب اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو ان کی مغفرت فرما دے۔ (رواہ الترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی مجلس اللہ کے ذکر سے اور درود شریف سے خالی نہ رہ جائے۔ جب کسی مجلس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر مبارک آئے خواہ خود ذکر کرے یا دوسرے شخص سے سنے تو درود شریف ضرور پڑھے۔ گو کسی مجلس میں آپ کا اسم گرامی سن کر ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا واجب ہے لیکن اکمل اور افضل یہی ہے کہ جب بھی آپ کا اسم گرامی سنے ہر بار درود شریف پڑھے، احتیاط اسی میں ہے کہ ہر مرتبہ درود شریف پڑھے کیونکہ درود شریف نہ پڑھنے پر وعیدیں آئی ہیں۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اصل بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔ (ترمذی) حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تم کو سب سے بڑا بخیل نہ بتادوں ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ضرور ارشاد فرمائیں، فرمایا جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے وہ سب سے بڑا بخیل ہے۔ (ترغیب) حضرت کعب بن عجرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ چناچہ ہم حاضر ہوگئے (اور آپ منبر پر چڑھنے لگے) جب آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ” آمین “ پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ” آمین “ جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ” آمین “ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے نہ سنتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ سبب اس کا یہ ہوا کہ جبریل میرے سامنے آئے اور جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، پھر جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ کا اسم گرامی لیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین، پھر جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبرائیل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے دونوں والدین یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوجائے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کریں۔ (الترغیب و الترہیب) ضروری مسئلہ : جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر خود کرے یا کسی سے سنے تو درود شریف پڑھے، اسی طرح جب کوئی مضمون یا تحریر لکھنے لگے تو اس وقت بھی درود شریف کے الفاظ لکھنا واجب ہے، کم از کم ﷺ تو ضرور لکھ دے، بعض لوگ اختصار کے طور پر ” صلعم “ ” ﷺ “ لکھ دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں پورا ﷺ لکھیں یا علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھ دیں، صلوٰۃ کے ساتھ سلام بھی بھیجنا چاہیے دونوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ کے چہرہ انور پر بشاشت ظاہر ہو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل آئے تھے، انہوں نے کہا کہ بیشک آپ کے رب نے فرمایا ہے کہ اے محمد ! کیا یہ بات آپ کو خوش کرنے والی نہیں ہے کہ آپ کی امت میں سے جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور آپ کی امت میں سے جو شخص آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا۔ (رواہ النسائی) مسئلہ : صلوٰۃ وسلام دونوں ہی ایک ساتھ پڑھنا چاہیے۔ اگر ایک پر اکتفا کرے تو بعض حضرات نے اس کو خلاف اولیٰ یعنی مکروہ تنزیہی بتایا ہے، درود شریف کے بہت سے صیغے احادیث شریف میں وارد ہوئے ہیں اور بہت سے صیغے اکابر سے منقول ہیں، جو صیغے سنت سے ثابت ہیں ان کے مطابق عمل کرنا افضل ہے اور دوسرے صیغوں کے ذریعہ صلوٰۃ وسلام پڑھنا بھی جائز ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجیں، آپ پر سلام بھیجنا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا دیا (یعنی نماز میں جو تشہد پڑھتے ہیں اس میں (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ ) بتادیا۔ آپ نے فرمایا درود اس طرح پڑھو (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ) اے اللہ درود بھیج محمد پر اور محمد کی آل پر جیسا کہ آپ نے درود بھیجا آپ نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر بیشک آپ مستحق حمد ہیں اور صاحب مجد ہیں۔ (رواہ البخاری ج 1: ص 477) یہ درود شریف وہی ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں، آپ نے فرمایا کہ یوں کہو : (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیّٰتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیّٰتِہٖ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ) (اے اللہ درود بھیجئے محمد پر اور آپ کی بیویوں پر اور ان کی آل و اولاد پر جیسا کہ آپ نے درود بھیجا آل ابراہیم پر اور اے اللہ برکت بھیجئے محمد پر اور آپ کی بیویوں پر اور ان کی آل و اولاد پر جیسا کہ برکت بھیجی آپ نے آل ابراہیم پر بلاشبہ آپ مستحق حمد ہیں صاحب مجد ہیں۔ (رواہ البخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جسے یہ خوشی ہو کہ ہم پر اور ہمارے اہل بیت پر درود بھیج کر بھرپور طریقے پر ناپ تول کر ثواب لے تو وہ یوں کہے : (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِن النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَّتِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ) (اے اللہ درود بھیج محمد پر جو نبی امی ہیں اور آپ کے ازواج پر جو امہات المومنین ہیں اور آپ کی اولاد پر اور آپ کے اہل بیت پر جیسا کہ آپ نے درود بھیجا ابراہیم پر بلاشبہ آپ مستحق حمد ہیں صاحب مجد ہیں) (رواہ ابو داؤد ص 141) حضرت رویفع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے محمد ﷺ پر درود بھیجا اور پھر یوں دعا کی (اَللّٰھُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) (اے اللہ ان کو (یعنی حضور اقدس ﷺ کو) قیامت کے روز اپنے قریب مقام میں نازل کیجیے) تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 87) فائدہ : بعض بزرگوں نے کثرت سے درود شریف پڑھنے کے لیے یہ مختصر درود شریف تجویز کیا ہے، (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَدَدَ مَا فِیْ عِلْمِہٖ ) درود شریف پڑھنے کی حکمتیں : حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ نے ” نشر الطیب “ میں درود شریف کی مشروعیت کی حکمتیں درج فرمائی ہیں جن میں بعض حضرت ممدوح نے مواہب سے نقل فرمائی ہیں اور بعض ان مواہب خداوندیہ سے ہیں جو حضرت ممدوح کو عطا کی گئی تھیں۔ (1) امت مرحومہ پر آنحضرت ﷺ کے احسانات بیشمار ہیں کہ آپ نے صرف حکم خدا وندی پورا کردینے کے طور پر تبلیغ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اصلاح امت کے لیے تدبیریں سوچیں اور بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے لیے دعائیں کیں اور ان کے احتمال مضرت سے رنجیدہ ہوئے لہٰذا آپ محسن بھی ہیں اور احسانات خداوندی کا واسطہ بھی ہیں، اور فطرت سلیمہ کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس محسن اور واسطہ احسان کے لیے رحمت کاملہ کی دعا کرے بالخصوص جبکہ احسانات کے بدلہ سے قاصر اور عاجز بھی ہے لہٰذا شریعت مطہرہ نے اسی فطرت سلیمہ کے مطابق کہیں وجوباً اور کہیں استحباباً درود شریف کا حکم دیا۔ (2) آنحضرت ﷺ خدا کے محبوب ہیں اور محبوب کے لیے محب سے کسی چیز کی درخواست کرنا اس درخواست کرنے والے کو اس محب کا محبوب بنا دیتا ہے، اگرچہ خداوند قدس خود اپنے محبوب پر صلوٰۃ بھیجتا ہے اور خدا کی رحمت ملنے کے لیے آنحضرت ﷺ کو ہماری دعائے رحمت کی حاجت نہیں ہے مگر خدا کی جناب میں آپ کے لیے رحمت کی دعا کرکے خود ہم کو خدا کا قرب اور اس کی رضا میسر ہوتی ہے۔ (3) آپ کے لیے دعائے رحمت کرنے میں آپ کے کمال عبدیت کے شرف خاص کا اظہار ہے کہ آپ کو بھی رحمت خداوندی کی حاجت ہے، نیز اس سے ان لوگوں کے ظن فاسد کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے معجزات دیکھ کر امور تکوینی میں آپ کا دخل سمجھتے ہیں یا احکام شرعیہ کو آپ کے اختیار میں جانتے ہیں۔ (4) آنحضرت ﷺ بھی انسان ہیں اور بشریت میں امت کے ساتھ شریک ہیں کہ امت کی طرح کھانے پینے اور دیگر حوائج زندگی کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی تھی بلکہ بعض امور میں امت کے افراد آنجناب ﷺ سے بڑھے ہوئے ہیں، مثلاً کثرۃ المال وغیرہ تو اس وجہ سے ممکن تھا کہ بعض افراد امت آپ کو اپنے جیسا بشر سمجھ کر بلکہ بعض امور میں کم دیکھ کر آپ کے اتباع سے گریز کرتے، لہٰذا شریعت مطہرہ نے اس کا علاج کیا اور آپ پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا تاکہ بشری اشتراک اور اپنا مالی امتیاز دیکھ کر کوئی دھوکہ نہ کھائے بلکہ آنحضرت ﷺ پر جو خدا کی رحمت خاص ہے اس کا استحضار کرے اور یہ سمجھے کہ یہ مال و دولت رحمت خداوندی کے سامنے کچھ بھی نہیں بالخصوص جبکہ آپ کے اسم گرامی سے قبل لفظ سیدنا و مولٰینا بڑھائے اور تبلیغ دین کی جدوجہد کے بعض احوال آپ کی صفات میں ذکر کرے تو خود کو آپ کا احسان مند ہی پائے گا اور بجائے اپنے نفس کو بڑا سمجھنے کے اپنی ذات کو آنحضرت ﷺ کا محتاج سمجھے گا اور آپ کے واسطہ سے قرب خداوندی حاصل کرے گا۔ (5) بعض طبائع میں مذاق توحید کا غلبہ ہوتا ہے اس غلبہ کی وجہ سے واسطوں سے زیادہ متعلق نہیں ہوتیں جن میں انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی ہیں، گو اس اعتقاد وو انقیاد کے بعد جو شرعاً واجب ہے یہ عدم زیادت مضر فی الایمان نہیں ہے لیکن کمال یہی ہے کہ جس واسطہ کی طرف التفات کو واحد حقیقی نے اپنا رضا کا ذریعہ بنایا ہے اس کی طرف التفات کرنے کو ذوقاً اور طبعاً بھی شاغل عن التوحید نہ سمجھے بلکہ مکمل توحید جانے، جیسا کہ محبوب کے قاصد کا اکرام اور اس کی خدمت و مدارت جس قدر عاشق کی جانب سے زیادہ تر ہوگی اسی قدر محبوب عاشق سے خوش ہوگا اور عاشق بیش از بیش قاصد کی مدارت کرے گا اور اس خدمت کو یہ نہ سمجھے گا کہ محبوب کے لیے میری محنت نہیں ہو رہی ہے بلکہ جس قدر محبوب کی خوشی دیکھے گا اسی قدرت قاصد کی زیادہ خدمت کرے گا۔ پس شریعت مطہرہ نے ذوقی نقص کے دفع کرنے کے لیے درود شریف مشروع فرمایا اور (صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا) کا حکم دے کر یہ بتایا کہ خدا تک پہنچانے والے واسطہ کی طرف جس قدر بھی احترام کے ساتھ توجہ کرو گے اللہ جل شانہٗ کی رضا نصیب ہوگی لہٰذا واسطہ کی جانب توجہ کرنے کو خلاف مقصو نہ سمجھو۔ 1 ؂(1 ؂ یہاں ہم نے مختصر لکھ دیا ہے ” فضائل صلوٰۃ وسلام “ کے نام سے ہمارا ایک رسالہ بھی ہے اسے بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ )
Top