Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی سو اللہ نے انہیں اس بات سے بری کردیا جو ان لوگوں نے کہی تھی، اور موسیٰ اللہ کے نزدیک باوجاہت تھے۔
ایمان والوں کو خطاب کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا دی صحیح بخاری ص 42، ص 483 میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ موسیٰ (علیہ السلام) شرمیلے آدمی تھے اور پردہ کرنے کا خوب زیادہ اہتمام کرتے تھے حتیٰ کہ اگر ان کے جسم کی کھال بھی نظر آجاتی تو اس سے بھی شرماتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل ننگے نہاتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے جاتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) تنہا غسل کرتے تھے، بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے انہیں تکلیف پہنچائی اور یوں کہا کہ یہ شخص اس قدر پردہ کرتا ہے ہو نہ ہو اس کی کھال میں کوئی عیب ہے یا جسم میں برص کے داغ ہیں یا اس کے فوطے پھولے ہوئے ہیں یا کوئی اور تکلیف کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل کی بات سے بری کرنے کا ارادہ فرمایا اور قصہ یہ پیش آیا کہ ایک دن انہوں نے تنہائی میں پتھر پر اپنے کپڑے رکھ دئیے پھر غسل فرمانے لگے، غسل کرکے فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کا ارادہ کیا ابھی کپڑے لینے نہ پائے تھے کہ جس پتھر پر کپڑے تھے وہ کپڑوں کو لے کر تیزی سے چلا گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی لی اور پتھر کے پیچھے چل دئیے اور فرمانے لگے کہ اے پتھر میرے کپڑے دیدے، اسی طرح بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے کیونکہ کپڑے پہنے ہوئے نہیں تھے اس لیے آپ کو انہوں نے برہنہ دیکھ لیا اور انہیں پتہ چل گیا کہ ان کے جسم پر کوئی بھی عیب نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی اچھی حالت میں پیدا فرمایا ہے، جب ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ لیا اور مان لیا کہ ان کے جسم میں کوئی عیب نہیں ہے تو پتھر کھڑا ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور پتھر کو اپنے عصا سے مارنا شروع کردیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا کہ اللہ کی قسم ان کے مارنے سے پتھر میں تین یا چار یا پانچ یا چھ سات نشانات پڑگئے تھے۔ قرآن مجید میں جو (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا) فرمایا ہے اس میں اسی قصے کو بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ایمان والو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی سو اللہ نے انہیں ان کی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک باوجاہت تھے۔ یہ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کا ذکر ہے لیکن امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگوں نے کیا تکلیفیں دی تھیں ؟ اس کے بارے میں بھی صحیح بخاری جلد نمبر 1: ص 446 اور ص 483 میں ایک قصہ لکھا ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ حنین کے موقع پر عرب کے بعض سرداروں میں مال تقسیم فرمایا تھا اور ان میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ دے دیا۔ وہیں حاضرین میں سے کسی نے یوں کہہ دیا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس میں انصاف نہیں کیا گیا یا یوں کہہ دیا کہ اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان لوگوں کی یہ بات نقل کردی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ اور اس کا رسول انصاف نہیں کرے گا تو پھر کون انصاف کرے گا ؟ اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے انہیں اس سے زیادہ تکلیف دی گئی پھر بھی انہوں نے صبر کیا۔ بات یہ ہے کہ جو مال آنحضرت ﷺ نے تقسیم فرمایا وہ کسی کی ملکیت نہیں تھا وہ اموال فئے تھا اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہ اختیار دیا گیا کہ اپنی صوابدید سے تقسیم فرمالیں، کسی کا حق روک کر مال تقسیم نہیں فرمایا تھا اور یہ بات نہ تھی کہ ایک کا حق دوسرے کو دے دیا، پھر اس کو انصاف کے خلاف کہنا ہی ظلم ہے۔ حدیث کی شرح لکھنے والے حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرنا کفر ہے جس کی سزا قتل ہے لیکن آپ نے مذکورہ بالا بات کہنے والے شخص کو مصلحتاً قتل نہیں کیا کیونکہ تالیف قلب کی ضرورت تھی۔ اہل عرب میں یہ شہرت ہوجاتی کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں، اس شہرت کی وجہ سے اندیشہ تھا کہ اسلام جو پھیل رہا تھا اس میں رکاوٹ ہوجاتی۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اتنی بڑی تکلیف دینے والی بات کو برداشت کرلیا اور فرما دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی اور انہوں نے صبر کیا، یہ تو ایک تکلیف تھی اس کے علاوہ منافقین سے تکلیفیں پہنچتی رہتی تھیں آپ درگزر فرماتے تھے، جب کبھی کوئی شخص دعوت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اسے تکلیفیں پہنچتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے برداشت کرکے بتادیا اور قول سے سمجھا دیا کہ پہلے بھی ایسا ہوا ہے۔ یہ جو ارشاد فرمایا کہ ” ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی “ مسلمانوں کو مزید خطاب فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کہو، ٹھیک بات میں سب کچھ آگیا سچی بات بھی اور صحیح بات بھی اور عدل و انصاف کی بات بھی اور ہر دینی بات بھی۔ اسی لیے حضرت عکرمہ ؓ نے فرمایا (کما فی معالم التنزیل) کہ (قولاً سدیدًا) سے لَآ الہ الاَّ اللّٰہ کہنا مراد ہے۔ ترتیب میں اولاً تقویٰ کا ذکر کیا پھر قول سدید کہنے کا حکم فرمایا، اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ تقویٰ ہوگا تو بندہ اعمال صالحہ اختیار کرے گا اگر تقویٰ نہ ہو تو اعمال صالحہ اختیار کرنے اور گناہ سے بچنے کی بندہ کو ہمت نہیں ہوتی، اللہ سے ڈرے اور آخرت کی فکر کرے تب قول اور فعل ٹھیک ہوتا ہے۔
Top