Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 8
لِّیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ١ۚ وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۠   ۧ
لِّيَسْئَلَ : تاکہ وہ سوال کرے الصّٰدِقِيْنَ : سچے عَنْ : سے صِدْقِهِمْ ۚ : ان کی سچائی وَاَعَدَّ : اور اس نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
تاکہ اللہ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال فرمائے اور اس نے کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار فرمایا ہے۔
(لِّیَسْءَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِھِمْ ) (تاکہ اللہ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال فرمائے) اس میں میثاق لینے کی حکمت بیان فرمائی اور مطلب یہ ہے کہ یہ میثاق اس لیے لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبیوں سے دریافت فرمائے جو عہد کرنے میں سچے تھے کہ تم نے اپنے عہد کے مطابق اپنی امتوں کو تبلیغ کی یا نہیں ؟ صحیح بخاری جلد 2 ص 465 میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت نوح (علیہ السلام) کو لایا جائے گا اور ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تم نے تبلیغ کی ؟ تو وہ عرض کریں گے کہ اے رب میں نے واقعتہً تبلیغ کی، پھر ان کی امت سے سوال ہوگا کہ کیا انہوں نے تمہیں میرے احکام پہنچائے ؟ وہ کہیں گے نہیں ! ہمارے پاس تو کوئی نذیر (ڈرانے والا) نہیں آیا، اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے دعوے کی تصدیق کے لیے گواہی دینے والے کون ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے امتی ہیں۔ یہاں تک بیان فرمانے کے بعد آنحضرت سید دو عالم ﷺ نے اپنی امت کو خطاب کرکے فرمایا کہ اس کے بعد تم کو لایا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ بیشک حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی۔ مسند احمد وغیرہ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے علاوہ دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں بھی انکاری ہوں گی اور کہیں گی کہ ہم کو تبلیغ نہیں کی گئی، ان کے نبیوں سے سوال ہوگا کہ تم نے تبلیغ کی ؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے کہ واقعی ہم نے تبلیغ کی تھی، اس پر ان سے گواہ طلب کیے جائیں گے تو وہ بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کی گواہی پیش کریں گے۔ (درمنثور جلد 1 ص 144) حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) سے یہ سوال ان کی امتوں کے سامنے ہوگا تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سچے تھے اور ان کے ماننے والے اپنے ایمان میں سچے تھے ان کے بارے میں سورة مائدہ کے آخری رکوع میں فرمایا (قَال اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ ) (یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی) جن لوگوں نے سچ کو جھٹلایا ان کے بارے میں فرمایا (وَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا) (اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار فرمایا) سورة زمر میں فرمایا (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بالصِّدْقِ اِِذْ جَاءَہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ) (سو اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور سچ کو جھٹلایا جب اس کے پاس آیا، کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ )
Top