Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! اللہ کی نعمت جو تمہیں ملی ہے اسے یاد کرو جبکہ تمہارے پاس لشکر آگئے، سو ہم نے ان پر ہوا بھیج دی اور لشکر بھیج دئیے جنہیں تم نے نہیں دیکھا، اور اللہ ان کے کاموں کو دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو،
غزوہ احزاب کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کی مدد اور کفار کی جماعت کی بدحالی اور بدحواسی اس رکوع میں غزوۂ احزاب کا ذکر ہے جسے غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے، یہ 5 ہجری کا واقعہ ہے، تھوڑی سی تمہید کے بعد اس غزوہ کی تفصیل نقل کی جاتی ہے۔ مدینہ منورہ میں زمانہ قدیم سے یہودی رہتے تھے اور دو قبیلے یمن سے آکر آباد ہوگئے تھے جن میں سے ایک کا نام اوس اور دوسرے کا نام خزرج تھا، انہیں خبر دی گئی تھی کہ نبی آخر الزمان خاتم النبیین ﷺ اس شہر میں تشریف لائیں گے، یہ لوگ آپ ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کا اتباع کرنے کے لیے یہاں آکر بس گئے تھے۔ جب حضور انور ﷺ نے حج کے موقع پر اوس اور خزرج کو منیٰ میں ایمان لانے کی دعوت دی تو وہ بھی مسلمان ہوگئے۔ یہودیوں کے سامنے حق ظاہر ہوگیا تب بھی ایمان نہ لائے (فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ کَفَرُوْا بِہٖ ) یہودیوں کے تین قبیلے مدینہ منورہ میں آباد تھے ان میں سے ایک بنی قینقاع اور دوسرا بنی نضیر اور تیسرا بنی قریظہ تھا۔ جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان تینوں سے تعاون اور تناصر کا معاہدہ فرمالیا تھا۔ بنی نضیر کا یہ واقعہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دو مقتولین کی دیت کے سلسلہ میں ان کے پاس تشریف لے گئے، یہودیوں نے کہا کہ آپ تشریف رکھئے ہم اس بارے میں مالی تعاون کریں گے، ادھر تو آپ ﷺ سے یہ کہا اور ادھر یہ مشورہ کیا کہ کوئی شخص اوپر چڑھ کر ان کے اوپر بھاری پتھر گرا دے، یہود میں سے ایک شخص نے اس کا ارادہ اور وعدہ کرلیا اور پتھر گرانے کے لیے اوپر چڑھ گیا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے مشورے سے مطلع فرما دیا اور آپ ﷺ جلدی سے واپس تشریف لے آئے اور آپ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو یہود کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ تم لوگ مدینہ منورہ چھوڑ دو اور یہاں سے چلے جاؤ، منافقین نے یہودیوں کو بھڑکایا اور کہا تم یہیں رہو اور ہرگز مت جاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے، اس سے ان کو تقویت پہنچ گئی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ سے نہیں نکلیں گے اور ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد ہے وہ بھی توڑتے ہیں، جب ان کی طرف سے یہ پیغام آیا تو آپ ﷺ نے ان سے جہاد کرنے کی تیاری کی اور حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو نائب بناکر اور دیگر صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے محلہ کی طرف روانہ ہوگئے (یہ محلہ شہر سے ذرا دور تھا) آپ ﷺ وہاں پہنچے تو وہ لوگ قلعہ بند ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ فرمایا، منافقین نے یہودیوں کو خبر بھیجی کہ تم ڈٹے رہنا ہم تمہیں بےیارو مددگار نہیں چھوڑیں گے، اگر تم سے جنگ ہوئی تو ہم بھی ساتھ لڑیں گے مگر انہوں نے کچھ بھی مدد نہ کی لہٰذا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپ ﷺ ہمیں جلا وطن کردیں مگر قتل نہ فرمائیں اور ہمیں ہتھیار بھی نہ لے جانے دیں، اس کے علاوہ جتنا سامان اونٹوں پر لے جاسکیں اسے لے جانے کی اجازت دیں، آپ نے انہیں جلاوطن کرنا منظور فرمالیا اور حکم فرمایا کہ تین دن میں مدینہ منورہ سے نکل جاؤ، وہ لوگ مدینہ منورہ سے نکل کرخیبر میں آباد ہوگئے اور بعض لوگ شام چلے گئے (بطور تمہید یہ واقعہ ہم نے البدایہ والنہایہ جلد 4 ص 75 سے نقل کیا ہے، مفصل قصہ انشاء اللہ سورة الحشر کی تفسیر میں بیان کریں گے) یہود نے جو اموال چھوڑے وہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں تقسیم فرما دئیے، یہ 4 ہجری کا واقعہ ہے۔ غزوۂ احزاب کا مفصل واقعہ اب غزوہ احزاب کا واقعہ سنئے اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ بنو نضیر کو جب حضور انور ﷺ نے مدینہ منورہ سے جلا وطن کردیا تو وہ وہاں جاکر بھی شرارتوں سے اور اپنی یہود والی بیہودگیوں سے باز نہ آئے، ان کے چودھری مکہ معظمہ میں پہنچے اور قریش مکہ سے کہا کہ آؤ ہم تم مل کر داعی اسلام ﷺ سے جنگ کریں اور ان کو ان کے کام کو اور ان کے ساتھیوں کو سب کو ختم کردیں۔ قریش مکہ نے کہا (جو مشرک تھے) کہ تم اہل کتاب ہو، سچ بولو ہمارا دین بہتر ہے یا محمد ﷺ کا دین بہتر ہے ؟ ان لوگوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ دین شرک کو دین توحید سے بہتر بتایا اور قریش سے کہہ دیا کہ تمہارا دین محمد ﷺ کے دین سے بہتر ہے، یہ بات سن کر قریش بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے، اس کے بعد یہودیوں کے سردار قبیلہ بنی غطفان کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ دیکھو محمد ﷺ سے جنگ کرنا ہے قریش مکہ نے ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا ہے تم لوگ بھی ہمارے ساتھ جنگ میں شریک ہوجاؤ تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا قصہ ہی ختم ہوجائے، ان کے علاوہ دیگر قبائل کی جماعتیں بھی جنگ کرنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ دشمنوں سے حفاظت کے لیے خندق کھودنا رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں کے ارادہ بد کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے حضرات صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا، حضرت سلمان فارسی ؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ کے باہر خندق کھود لی جائے، انہوں نے بتایا کہ اہل فارس دشمن سے محفوظ رہنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کرتے ہیں، چناچہ خندق کھودی گئی جو مدینہ منورہ کے اس جانب تھی جدھر سے دشمنوں کے آنے کا اندیشہ تھا، اس خندق کی کھدائی میں سید دو عالم ﷺ خود شریک ہوئے، سردی کا موسم تھا اور ہر طرف سے خوف ہی خوف تھا، سید دو عالم ﷺ نے خود ہی خط کھینچ کر خندق کی حدود مقرر فرمائیں اور ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ کا رقبہ کھودنے کے لیے دیا، (بعض حضرات نے اس خندق کی لمبائی ساڑھے تین میل بتائی ہے) حضرت سلمان فارسی ؓ بڑے قوی اور تندرست آدمی تھے ان کے متعلق مہاجرین و انصار میں اختلاف ہوا، انصار نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین نے کہا کہ ہم میں سے ہیں ان کو ہمارے ساتھ قطعہ کھودنے کے لیے دیا جائے، یہ سن کر سید دو عالم ﷺ نے فرمایا (سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلِ الْبَیْتِ ) (یعنی سلمان نہ مہاجرین میں سے ہیں نہ انصار میں سے ہیں بلکہ وہ ہمارے اہل بیت میں سے ہیں) جب دشمنوں کی جماعتیں مدینہ طیبہ کے قریب پہنچیں جن کی تعداد دس بارہ ہزار تھی تو انہوں نے خندق کھدئی ہوئی پائی اور کہنے لگے یہ تو عجیب دفاعی تدبیر ہے جسے اہل عرب نہیں جانتے تھے، وہ لوگ خندق کے اس طرف رہ گئے اور رسول اللہ ﷺ خندق کے اس طرف تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ جبل سلع کی طرف پشت کرکے قیام پذیر ہوگئے اور عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی جگہوں یعنی قلعوں میں محفوظ فرما دیا۔
Top