Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 31
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عِنْدَ : پاس رَبِّكُمْ : اپنا رب تَخْتَصِمُوْنَ : تم جھگڑو گے
پھر یقینی بات ہے کہ قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس پیش ہو کر مدعی اور مدعی علیہ بنو گے۔
قیامت کے دن ادعاء اور اختصام (ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ) (پھر یقینی بات ہے کہ قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس پیش ہو کر مدعی اور مدعی علیہ بنو گے) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ عرصہ دراز تک ہم اس آیت کو پڑھتے رہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم میں جھگڑے کیوں ہوں گے جبکہ ہماری کتاب ایک ہے، قبلہ ایک ہے، حرم ایک ہے نبی ﷺ ایک ہے۔ پھر جب ہم میں آپس میں قتل و قتال ہوا تو سمجھ میں آگیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (در منثور، از مستدرک حاکم) حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ جب جنگ صفین کے موقعہ پر ہم آپس میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس وقت ہم نے سمجھا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں ہے۔ (منثور) حضرت ابن عمرو حضرت ابو سعید ؓ نے اپنے زمانہ میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کو آیت شریفہ کا مصداق قرار دیا، لیکن الفاظ کا عموم ان سب جھگڑوں کو شامل ہے جو قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے اور بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں گے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن جو لوگ جھگڑے لے کر اٹھیں گے ان میں سب سے پہلے دو پڑوسی ہوں گے جس کا جو حق مارا گیا ہوگا اپنے حق کے لیے جھگڑا کرے گا۔ رعیت امیر وزیر اور بادشاہ پر دعویٰ کرے گی، مالی حق رکھنے والوں پر اصحاب حقوق دعویٰ کریں گے، مظلوم ظالم سے اپنا حق طلب کرے گا جن کے قرضے تھے وہ قرضے طلب کریں گے جن کی غیبت تھی یا جن پر تہمت دھری تھی وہ بھی مدعی بن کر کھڑے ہوجائیں گے اس مضمون میں تفصیل بہت ہے جاننے والے جانتے بھی ہیں بہرحال اگر وہاں مدعی علیہ ہونے سے بچنا ہے تو کسی بندے کا کوئی حق مار کر نہ جائیں۔
Top