Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ اپنے بندوں کو کافی نہیں ہے، اور وہ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں، جو اللہ کے علاوہ ہیں اور اللہ جسے گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے
بندہ کو اللہ کافی ہے، اللہ کے سوا تکلیف کو کوئی دور نہیں کرسکتا اور اس کی رحمت کو کوئی روک نہیں سکتا جب رسول اللہ ﷺ مشرکین کو توحید کی دعوت دیتے تھے وہ لوگ برا مانتے تھے ایک دن ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ دیکھو ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ورنہ ہم اپنے معبودوں سے کہیں گے کہ تمہیں ایسا کردیں کہ تمہارے ہوش و حواس قائم نہ رہیں، اس پر آیت کریمہ (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ) نازل ہوئی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خالد بن لید ؓ کو بھیجا تھا کہ عزیٰ بت کو توڑ دیں جب یہ وہاں پہنچے تو وہاں کے بت خانہ کا جو ذمہ دار بنا ہوا تھا اس نے کہا دیکھو میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں اس بت کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے گی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے اس کی کوئی بات نہ مانی آگے بڑھے اور جو کلہاڑا لے کر گئے تھے وہ اس بت کی ناک پر مار کر تیا پانچا کردیا اس پر (وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ) کا نزول ہوا۔ (ذکرھما فی الدر المنثور عن قتادۃ ) مشرکین خود تو اپنے معبودوں سے ڈرتے ہی ہیں مومن بندوں کو بھی ڈراتے ہیں اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ) (کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہے جو ہر شر اور ضرر اور آفت و مصیبت سے بچائے گا بت تو بےجان ہے ان سے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جو انسان اور جن کچھ اختیار رکھتے ہیں وہ بھی کسی نفع اور ضرر کے مالک نہیں۔ (وَمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ ) (اور اللہ جسے گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا ہے ؟ )
Top