Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 2
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا اِنَّا : ہم قَتَلْنَا : ہم نے قتل کیا الْمَسِيْحَ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلَ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَمَا قَتَلُوْهُ : اور نہیں قتل کیا اس کو وَمَا صَلَبُوْهُ : اور نہیں سولی دی اس کو وَلٰكِنْ : اور بلکہ شُبِّهَ : صورت بنادی گئی لَهُمْ : ان کے لیے وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا : جو لوگ اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مَا لَهُمْ : نہیں ان کو بِهٖ : اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِلَّا : مگر اتِّبَاعَ : پیروی الظَّنِّ : اٹکل وَ : اور مَا قَتَلُوْهُ : اس کو قتل نہیں کیا يَقِيْنًۢا : یقیناً
اور انہوں نے یوں کہا کہ بلاشبہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کردیا جو اللہ کے رسول ہیں حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھا یا لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا اور بلاشبہ جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور ان کے بارے میں شک میں ہیں اٹکل پرچلنے کے سوا ان کو ان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ اور یقینا انہوں نے ان کو قتل نہیں کیا۔
نیز سورة تحریم میں فرمایا (وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتَْ فَرْجَھَا) (الآیۃ) لیکن یہودی اسی پر اڑے رہے کہ حضرت مریم سے برائی کا صدور ہوا۔ پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبوت سے سرفراز ہوئے تو یہودیوں نے ان کی دشمنی میں اور زیادہ اضافہ کردیا۔ حتیٰ کہ اپنے خیال میں ان کو قتل ہی کردیا۔ اسی کو (وَقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ) میں بیان فرمایا۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ وہ ان کو رسول مانتے نہ تھے۔ پھر بھی ان کو رسول اللہ کہا ان کا یہ کہنا مذاق بنانے کے تھا۔ اور یہ ممکن ہے کہ انہوں نے اس کی جگہ کوئی اور لفظ کہا ہو اللہ جل شانہ نے ان کی شان رفیع ظاہر فرمانے کے لیے لفظ رسول اللہ بڑھا کر ان کی صفت بیان فرما دی۔ اس کے بعد فرمایا (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ) کہ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا یہ اشتباہ کس طرح سے ہوا اس کے بارے میں مفسرین نے کئی باتیں لکھی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو ایک جگہ قید کردیا تھا آپ نے ان کے لیے بددعا کی لہٰذا وہ بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے جب یہ بات یہودیوں کے سردار کو پہنچی جس کا نام یہودا تھا اس نے یہودیوں کو جمع کیا اور سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ قتل کرنے کے لیے چلے تو اللہ تعالیٰ شانہ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیج دیا جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ یہودیوں میں ایک شخص قتل کرنے کے لیے اندر داخل ہوا جس کا نام طیطانوس تھا وہاں ان کو موجود نہ پایا اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت کے مشابہ بنا دی جب وہ باہر نکلا تو یہودیوں نے اسے قتل کردیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اور وہب بن منبہ سے یوں منقول ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ستر حواری تھے جو ایک گھر میں جمع تھے۔ قتل کرنے والے جب آئے تو گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ہر شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت پر ہے یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ تم لوگوں نے ہم پر جادو کردیا تم میں عیسیٰ کون ہے وہ سامنے آجائے ورنہ ہم تم سب کو قتل کردیں گے یہ سن کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں ایسا کون شخص ہے جو آج اپنی جان جنت کے بدلے میں بیچ دے ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ لہٰذا وہ شخص باہر نکلا اور اس نے حاضرین سے کہا کہ میں عیسیٰ ہوں لہٰذا انہوں نے اس کو قتل کردیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا۔ قتادہ اور مجاہد وغیرہما کا بھی یہی قول ہے۔ ایک قول یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں میں ایک شخص منافق تھا جب یہودیوں نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس منافق نے کہا کہ میں تمہیں بتادیتا ہوں کہ وہ کہاں ہیں اور اس نے تیس درہم اس کی اجرت بھی لے لی۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے گھر میں داخل ہوا تو آپ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے، منافق کی صورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جیسی صورت بنا دی گئی۔ لہٰذا ان لوگوں نے اندر داخل ہو کر اسی کو قتل کردیا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ (روح المعانی صفحہ 10: ج 6) علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ 496: صفحہ ج 1 میں لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک گھر میں بند کردیا تھا اور ان پر ایک نگران مقرر کردیا تھا جب قتل کرنے کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ نے اس نگران کی صورت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت بنا دی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اوپر اٹھا لیا۔ دور حاضر میں یورپ کے ریسرچ کرنے والوں نے ایک اور بات کا کھوج لگایا ہے اور وہ یہ کہ جب بنی اسرائیل نے طے کر ہی لیا کہ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو شہید کر ہی دینا ہے تو حکومت وقت کے پاس شکایت لے کر گئے۔ اس زمانہ میں دمشق اور اس کے آس پاس علاقوں میں رومیوں کی حکومت تھی یہودی رومی حاکم کے پاس گئے اور کہا کہ یہاں ایسا ایسا ایک شخص ہے جو ہمارے دین سے نکل گیا اور ہمارے جوانوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس نے ہماری جماعت میں تفریق کردی اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں وہ تمہاری حکومت کے لیے خطرہ ہے کسی نظام اور قانون کے پابند نہیں اگر اس کے شر کو نہ روکا گیا تو ممکن ہے اس کی طاقت بڑھتے بڑھتے تمہارے لیے اور ہمارے لیے ایک بڑا فتنہ بن جائے اور تمہاری حکومت ہی ختم ہوجائے۔ چونکہ حکومت یہودیوں کے دین میں دخل نہیں دیتی تھی اس لیے دینی اعتبار سے حکومت کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ابھارنا اور چڑھانا مشکل تھا لہٰذا انہوں نے سیاسی امور کو سامنے رکھ کر حکومت کو بھڑکایا اور سمجھایا کہ اس شخص کی وجہ سے تمہاری حکومت کو شدید خطرہ ہے۔ جب یہودیوں نے بار بار شکایتیں پہنچائیں اور حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے معاملہ کے سنگین ہونے کا اظہار کرتے رہے تو حکومت کی طرف سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طلب کیا گیا۔ یہ جمعہ کا دن اور عصر کے بعد کا وقت تھا اور تھوڑی دیر میں سنیچر کی رات شروع ہونے والی تھی۔ یہودی چاہتے تھے کہ سنیچر کی رات شروع ہونے سے پہلے قصہ تمام ہوجائے۔ حاکم کے پاس بھاری تعداد میں جمع ہوگئے کہ کیا حکم دیتا ہے۔ آفتاب غروب ہونے ہی کو تھا کہ حاکم نے فیصلہ دے دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے اور صلیب پر چڑھا دیا جائے۔ مجرم کو پھانسی کا پھندا خود لے کر جانا پڑتا تھا اور پھانسی گھر شہر سے دور تھا۔ یہودی قتل کے فیصلے سے بہت خوش ہوئے اور جو پولیس والے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر جا رہے تھے ان کے ساتھ کثیر تعداد میں یہودی بھی ساتھ گئے جن میں بہت سے بیوقوف نوجوان بھی تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سخت دشمنی رکھنے والے بھی تھے۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو برا کہتے ہوئے اور تکلیف دیتے ہوئے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ قانون یہ تھا کہ جس شخص کو کسی جرم کے تحت پھانسی دی جاتی تھی صلیب کی لکڑی اس سے اٹھوا کر پھانسی گھر تک لے جایا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ضعیف الجثہ تھے، اسفار کرتے ہوئے لاغر ہوچکے تھے کچہری میں کھڑے کھڑے زیادہ وقت گزر گیا تھا اور صلیب بھاری تھا ان سے اٹھ نہ رہی تھی جو پولیس والا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ساتھ لے جا رہا تھا اس نے ایک یہودی نوجوان سے کہا کہ صلیب کی اس لکڑی کو اٹھا کرلے چل۔ وہ شخص بہت زیادہ دشمنی میں آگے تھا اس نے صلیب اٹھا لیا اور جلدی جلدی آگے لے کر چلنے لگا تاکہ معاملہ نپٹ جائے۔ اور سورج چھپنے سے پہلے قتل کا قصہ تمام ہوجائے۔ اسی طرح چلتے چلتے جب پھانسی گھر پہنچے تو پھانسی گھر کے پولیس والوں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پولیس والے فارغ ہوئے جو ہمراہ آ رہے تھے۔ پھانسی گھر کے پولیس والوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان صلیب کو اٹھائے ہوئے ہے قانون کے مطابق انہوں نے اس نوجوان کو پکڑ لیا اور اسے پھانسی دینے لگے وہ چیختا چلاتا رہا اور اپنی برأت ظاہر کرتا رہا اور پکار پکار کر کہتا رہا کہ مجرم دوسرا شخص ہے میں نے تو دل لگی کے طور پر صلیب اٹھا لیا تھا۔ اور پولیس والوں نے جلدی کرنے کی وجہ سے مجھے اٹھانے کا حکم دیا تھا یہ اپنی زبان میں چیختا رہا رومیوں کی پولیس کے سامنے اول قانون کے مطابق یہی شخص مستحق سزا تھا دوسرے وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ وہ سمجھے کہ جس مجرم کو پھانسی دی جاتی ہے وہ چیخ پکار تو کرتا ہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے خیال میں حاکم کے حکم کے مطابق اسی نوجوان کو پھانسی دے دی کیونکہ وہ اسی کو مجرم سمجھتے تھے۔ یہودی دور کھڑے ہوئے خوش ہو رہے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کروا دیا۔ قتل تو ہوا ان میں ہی ایک نوجوان اور سمجھ رہے تھے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اوپر اٹھا لیا اور کافروں کے ارادوں اور شرارتوں سے انہیں بچا لیا۔ بہر حال جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کیا تھا وہ ان کے قتل میں ناکام ہوگئے اور ان کو اشتباہ ہوگیا۔ ان کا اپنا آدمی قتل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور ان کی مکاری دھری رہی۔ (وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ) ۔ پھر فرمایا (وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاع الظَّنِّ ) (اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ ان کی جانب سے شک میں ہیں ان کو ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے سوائے اٹکل پر چلنے کے) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قتل کے دعویدار ہیں انہیں قتل کا یقین نہیں یہ تردد تھا کہ اگر ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ختم کردیا ہے تو ہمارا آدمی کہاں ہے اور ہمارا آدمی مقتول ہوا ہے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کہاں ہیں۔ پھر فرمایا (وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ) (اور یہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا) عیسیٰ (علیہ السلام) نہ مقتول ہوئے نہ انہیں ابھی تک طبعی موت آئی ہے۔ معراج کی رات میں آنحضرت ﷺ سے انہوں نے آسمان دوم میں ملاقات کی پھر وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ قرآن و حدیث کے موافق مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے جن لوگوں کو قرآن و حدیث کو ماننا نہیں ہے وہ اس کے خلاف باتیں کر کے اپنا ایمان کھو چکے ہیں اس بارے میں سورة آل عمران کی آیت (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِّنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ) کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے۔ وہاں ہم ضروری معلومات سپرد قلم کر آئے ہیں۔
Top