Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
دیکھو یہ لوگ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کا یہ افتراء صریح گناہ ہونے کے لیے کافی ہے۔
پھر فرمایا : (اُنْطُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ) کہ ان کا یہ قول سراسر صریح بہتان ہونے کے لیے کافی ہے، اپنے جھوٹے دعوؤں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں کہ ہم اس کے نزدیک محبوب اور مقبول ہیں۔ تزکیہ نفس کی ضرورت اور اہمیت : اپنے نفس کو رذائل سے اور برے اخلاق سے پاک صاف کرنا چاہیے اور یہ بہت مبارک عمل ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے کا رہائے نبوت میں (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِیْھِمْ ) فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے موافق جو شخص اپنے نفس کو رذائل سے اور برے اخلاق اور برے اعمال سے پاک کرے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف میں فرمایا (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی) (کہ بیشک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوا) جو لوگ رذائل اور بد اخلاقی میں مبتلا ہیں ان کا اپنے کو پاکباز بتانا یہ تو دہرا جرم ہے، ہیں برے اور بنتے ہیں اچھے۔ لیکن جو لوگ سچ مچ نیک اور صالح ہیں اور رذائل سے پاک ہیں اخلاق حسنہ سے متصف ہیں، ان کو بھی اپنی تعریف اور تزکیہ کرنا زیب نہیں دیتا کیونکہ اس کا باعث عموماً تکبر ہوتا ہے۔ سورة و النجم میں ارشاد فرمایا (فَلاَ تُزَکُّوّٓا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) (سو تم اپنے نفسوں کی پاکیزگی بیان مت کرو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کون متقی ہے) ۔ اپنی تعریف کرنے کی ممانعت : اگر کوئی شخص عمومی طور پر گناہوں سے اور رذائل اور بد اخلاقی سے بچتا ہو تب بھی کچھ نہ کچھ خرابی کوتاہی تو باقی رہ ہی جاتی ہے۔ پھر انجام کا پتہ نہیں کہ خاتمہ کس حالت پر ہوگا اس لیے اپنے تزکیہ سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو ایسا نام رکھنا بھی پسند نہیں فرمایا جس سے اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہو۔ حضرت زینب بن ابی سلمہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میرا نام برہ (نیک عورت) رکھ دیا گیا تھا آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا کہ اپنی جانوں کو پاکیزہ نہ بتاؤ۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم میں نیک کون ہے اس کا نام زینب رکھ دو ۔ (رواہ مسلم صفحہ 208: ج 2) تحدیث بالنعمۃ کی اجازت : اللہ نے اگر کسی کو اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کی نعمت سے نوازا ہو اور بطور تحدیث بالنعمۃ اپنی اچھی حالت بیان کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن بیان کرتے وقت اپنے باطن کا جائزہ لے کہ نفس کہیں دھوکہ تو نہیں دے رہا ہے، تحدیث بالنعمۃ کے پردہ میں اپنی تعریف اور تزکیہ کا کام تو نہیں ہو رہا ہے۔
Top