Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو، اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے ان کے بنسبت یہ کافر زیادہ راہ راست پر ہیں
یہودیوں کی جسارت جنہوں نے شرک کو توحید سے افضل بتا دیا لباب النقول صفحہ 71 میں اس آیت کا شان نزول بتاتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے علماء اور رؤساء جو قبیلہ بنی نضیر میں سے تھے مکہ معظمہ پہنچے۔ قریش مکہ نے آپس میں کہا کہ یہ لوگ علماء یہود ہیں پہلی کتابوں کا بھی علم رکھتے ہیں۔ ان سے دریافت کرو کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد ﷺ کا دین بہتر ہے ؟ چناچہ انہوں نے علماء یہود سے دریافت کیا۔ ان لوگوں نے (یہ جانتے ہوئے کہ قریش مکہ مشرک ہیں اور دین ابراہیمی کو چھوڑ چکے ہیں اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ حق پر ہیں واقعی اللہ کے نبی ہیں) جواب میں کہہ دیا کہ تم لوگ محمد سے اور ان کا اتباع کرنے والوں کی نسبت زیادہ ہدایت پر ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) سے لے کر (مُلْکاً عَظِیْماً ) تک آیات نازل فرمائیں۔ یہودی یہ جانتے تھے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں وہ آپ کی آمد کے انتظار میں بھی تھے۔ اور جو علامات پہلے سے انہیں معلوم تھیں ان کے اعتبار سے آپ کو پہچان بھی لیا لیکن چند افراد کے علاوہ یہود کے علماء اور عوام نے اسلام قبول نہ کیا (فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ) اور مشرکین کو بھی انہوں نے یہ بتادیا کہ تم بنسبت محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب اور اتباع کے زیادہ ہدایت والے ہو۔ نفسانیت اور عناد کا ناس ہو جب یہ دونوں چیزیں کسی کے دل میں جگہ پکڑ لیتی ہیں تو حق اور حقیقت کو دیکھنے ہی نہیں دیتیں، آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہیں دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس توریت شریف کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) توحید کی دعوت دینے کے لیے تشریف لاتے رہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ شرک بدترین چیز ہے اس بات کو جانتے ہوئے علماء یہود نے مشرکین مکہ کو ضد اور عناد میں داعی توحید سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب و اتباع سے زیادہ ہدایت پر بتادیا۔ جو کچھ علم ان کے پاس تھا اس کی کچھ لاج نہ رکھی اور جبت اور طاغوت پر ایمان لے آئے۔ جبت اور طاغوت کا معنی : لفظ جبت اور طاغوت کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جبت ایک بت کا نام تھا۔ اس کے بعد وہ ہر معبود باطل کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور طاغوت ہر باطل چیز کو کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جبت جادو گر کے لیے اور طاغوت شیطان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں ہم نے بعض اقوال کے مطابق آیت شریفہ کا ترجمہ کردیا ہے یہودیوں کی شرارت نفس دیکھو کہ علم کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور جہالت اختیار کرلی اور اہل شرک کو ہدایت پر بتادیا، اور اس طرح وہ بتوں پر شیطان پر ایمان لے آئے۔ ایسی جاہلانہ باتیں عصبیت جاہلیہ کی وجہ سے دور حاضر کے بعض فرقوں اور بعض جماعتوں سے بھی صادر ہوتی رہتی ہیں۔
Top