Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا وہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے سو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی اور ہم نے ان کو بڑا ملک عطا کیا،
یہودیوں کو بغض اور حسد کھا گیا لباب النقول صفحہ 71 میں ہے کہ اہل کتاب نے کہا کہ محمد ﷺ یوں کہتے ہیں کہ ان کو جو کچھ دیا گیا تواضع کی وجہ سے دیا گیا اور ان کی نو بیویاں ہیں اور ان کا مقصد بس نکاح کرنا ہی ہے اور اس سے بڑھ کر کون سا بادشاہ ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا (اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ ) آخر تک نازل فرمائی۔ یہود حق کو تو قبول کرتے نہ تھے۔ البتہ اعتراضات اور جھوٹے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے اور کچھ نہ ملا تو رسول اللہ ﷺ کے کثرت ازواج پر ہی اعتراض کردیا جب دلائل سے آنحضرت ﷺ کی نبوت اور رسالت ثابت ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اور رسول، اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف نہ خود چلتے ہیں نہ دوسروں کو چلاتے ہیں تو اب یہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوا کہ اس نے ایسے شخص کو کیوں نبی بنایا جس کی بیویوں کی تعداد زیادہ ہے، اعتراض کرنا یہودیوں کی جہالت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اگر ملک کا کچھ حصہ ان کے پاس ہوتا تو کسی کو نقیر کے برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ (نقیر کھجور کے گٹھلی کے اندر کے گڑھے کو کہا جاتا ہے جس کا ترجمہ ہم نے یوں کیا ہے کہ کسی کو ذرا بھی کچھ نہ دیتے) خود تو کسی کو پھوٹی کوڑی دینے کو تیار نہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ عطا فرمایا ہے اس پر حسد کرتے ہیں۔ حسد کرنے والابہت بڑا بیوقوف ہوتا ہے اس کے حسد سے کسی کی نعمت چھن نہیں جاتی اور وہ خواہ مخواہ ان نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر جو اللہ نے کسی کو دی ہیں اندر اندر کڑھتا رہتا ہے اور حسد کی آگ میں جلتا بھنتا ہے حسد کی یہ سب سے بڑی شناعت اور قباحت ہے کہ حاسد اللہ کی قضا و قدر پر راضی نہیں۔ اللہ نے تو اپنی مہربانی سے نعمت عطا فرما دی۔ لیکن حاسد اللہ کے اس انعام سے راضی نہیں۔ آل ابراہیم کو اللہ نے کتاب اور حکمت اور ملک عظیم عطا فرمایا : چونکہ یہودی بنی اسرائیل کی تاریخ سے واقف تھے اس لیے ان کو اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب بھی دی اور حکمت بھی دی اور ان کو ملک بھی عطا کیا۔ آل ابراہیم سے حضرت داؤد (علیہ السلام) مراد ہیں۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی کتاب زبور عطا فرمائی تھی اور داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو حکومت اور سلطنت بھی عطاء کی تھی اور ان حضرات کی بیویاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ معالم التنزیل صفحہ 442: ج 1 میں لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی ایک ہزار تین سو بیویاں تھیں۔ اور داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں، جیسے وہ حضرات آل ابراہیم میں سے تھے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ بھی آل ابراہیم میں سے ہیں ان کی بیویاں متعدد ہوگئیں تو اس میں کیا اشکال کی بات ہے۔ سورة ابراہیم میں فرمایا (وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً ) (اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجے آپ سے پہلے رسول اور ہم نے ان کو بیویاں دیں اور ذریت بھی دی) ۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جس کو جو نعمت چاہے عطا فرمائے اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے اللہ کی عطا اور بخشش پر اعتراض کرنا اور اس سے راضی نہ ہونا کفر ہے پھر جس طرح تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کو پورا پورا اختیار ہے جس کو چاہے عطا فرمائے اسی طرح بیویاں حلال فرما دیں اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے نو بیویوں کی اجازت دے کر ارشاد فرمایا (لاَ یَحِلُّ لَکَ النّسَآءُ مِنْ بَعْدُ ) (الایۃ) اور امت محمدیہ کو صرف چار بیویوں تک کی اجازت دے دی وہ مالک تکوین و تشریع ہے اس پر اعتراض کرنا جہالت اور ضلالت ہے۔
Top