Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو کوئی شخص اچھی سفارش کرے، اسے اس میں سے حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس میں سے حصہ ملے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اچھی سفارش کا ثواب اور بری سفارش کا گناہ اس آیت شریفہ میں شفاعت یعنی سفارش کرنے کی ترغیب دی ہے جبکہ سفارش اچھی ہو۔ اور سفارش کرنے پر وعید بھی بتائی ہے جبکہ سفارش بری ہو۔ جبکہ کسی کا مطلوب اچھا ہو تو اس کی سفارش کردینا ثواب کا کام ہے سفارش سے صاحب ضرورت کا کام بن جائے گا اور سفارش کرنے والے کو ثواب مل جائے گا۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی بات پوری نہیں پہنچا سکتے اور بات کو صحیح طریقے پر نہیں کہہ سکتے اور بہت سے لوگ اپنے علم و فہم اور لسان وبیان کے اعتبار سے اپنا مقصد ادا کرنے پر قادر تو ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں سے کام ہے ان لوگوں تک پہنچ نہیں پاتے دونوں قسم کے لوگوں کے لیے سفارش کردی جائے تو یہ بہت مبارک ہے اور ثواب کا کام ہے، ضروری نہیں کہ جس کی سفارش کی جائے اس کا کام ہو ہی جائے البتہ سفارش کرنے والے کو سفارش کا ثواب ضرور مل جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اِشْفَعُوْا فَلْتُوْ جَرُوْا وَ یَقْضِی اللّٰہُ عَلٰی لِسَانِ رَسُوْلِہٖ مَاشَاءَ ۔ (رواہ البخاری صفحہ 891: ج 2) یعنی تم سفارش کردیا کرو تم کو ثواب دیا جائے گا اور اللہ اپنے رسول کی زبانی جو چاہے فیصلہ فرمائے گا، مطلب یہ ہے کہ تم سفارش کر کے ثواب لے لو جس کی سفارش میرے پاس لاؤ گے اس کا پورا ہونا نہ ہونا یہ دوسری بات ہے، اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی تو میرے ذریعہ سے کام ہوجائے گا اگر اس کا کام نہ ہوا تب بھی تمہارا ثواب تو کہیں نہیں گیا۔ شمائل ترمذی میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : وَ اَبْلِغُوْنِیْ حَاجَۃَ مَنْ لاَّ یَسْتَطِیْعُ اِبْلاَ غَھَا فَاِنَّہٗ مَنْ اَبْلَغَ سُلْطَانًا حَاجَۃَ مَنْ لاَّ یَسْتَطِیْعُ اِبْلاَغَھَا ثَبَّتَ اللّٰہُ قَدَمَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یعنی تم اس شخص کی حاجت مجھ تک پہنچا دیا کرو جو خود اپنی حاجت نہیں پہنچا سکتا کیونکہ جو شخص کسی صاحب اقتدار کو کسی ایسے شخص کی حاجت پہنچا دے جو خود اپنی حاجت نہیں پہنچا سکتا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ قیامت کے دن اس کو ثابت قدم رکھے گا۔ جس طرح اچھی سفارش کرنے پر ثواب ہے اسی طرح بری سفارش کرنے پر گرفت ہے اور بری سفارش کرنا گناہ ہے کوئی شخض کسی گناہ کے کام میں لگنا چاہتا ہے کسی ایسے محکمہ میں ملازمت چاہتا ہے جو شرعاً حرام ہے سود یا قمار کا کاروبار کرنا چاہتا ہے حرام چیزیں بیچنے کے لیے دکان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ایسے شخص کے لیے سفارش کرنا حرام ہے اور یہ شفاعت سیۂ یعنی بری سفارش ہے۔ بہت سے لوگ یہ دیکھ لیتے ہیں کہ یہ ہمارا عزیز قریب ہے یا کسی دوست کا لڑکا ہے اس کے لیے سفارش کردیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کس مقصد اور کس عمل کے لیے سفارش کررہا ہوں یہ عمل اور یہ مقصد حرام ہے یا حلال گناہ ہے یا ثواب ؟ گناہ کی سفارش کرکے گناہ میں شریک ہوجاتے ہیں جس کے لیے سفارش کی ہے وہ جب تک گناہ کا کام کرتا رہے گا اور اس کے زیر اثر جو لوگ گناہ کریں گے ان سب کے گناہ میں سفارش کرنے والے کی شرکت رہے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے بارے میں جس کسی کی شفاعت حائل ہوگئی تو اس نے اللہ کا مقابلہ کیا اور جس کے بارے میں جھگڑا کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ باطل ہے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا جب تک کہ باز آجائے اور جس کسی نے کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخیوں کے جسموں سے نکلنے والے خون پیپ میں ٹھہرا دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل جائے۔ (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ 315) مسئلہ : اللہ تعالیٰ نے جرائم کی جو حدود مقرر فرمائی ہیں ان کے رکوانے کے لیے سفارش کرنا حرام ہے، بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی تھی قریش نے چاہا کہ اس کا ہاتھ نہ کٹے انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سفارش کے لیے آمادہ کیا جب وہ سفارش کرنے لگے تو آنحضرت سرور عالم ﷺ نے فرمایا اتشفع فی حدمن حدود اللہ (کیا تم اللہ کی مقرر فرمودہ حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو) پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کہ کوئی اونچے خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی (اعاذہا اللہ تعالیٰ ) تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (رواہ البخاری صفحہ 1003: ج 2) جس طرح گناہ کے کاموں کے لیے سفارش حرام ہے اسی طرح سے نااہل کے لیے بھی سفارش نہ کرے، کیونکہ جس شخص کو جو کوئی چھوٹا بڑا منصب یا عہدہ یا ملازمت دلائی جائے اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو اس میں حکومت کی اور عوام کی خیانت ہے اور نااہل کے لیے سفارش کردینا غدر ہے اور فریب ہے، سفارش کرنے میں صرف اپنے اور پرائے ہی کو نہ دیکھے بلکہ حلال و حرام کو بھی دیکھے اور اہل اور نااہل کو بھی دیکھ لیا کرے۔ فائدہ : سفارش کی حقیقت اتنی سی ہے کہ جس شخص سے کام بن سکتا ہو اس سے کہہ دیا جائے کہ فلاں شخص کا کام کردے یہ اچھا آدمی ہے صاحب ضرورت ہے لیکن جس سے سفارش کی جائے اس پر واجب نہیں ہوجاتا ہے جس کام کی سفارش کی گئی اسے کر ہی دے، سفارش کرکے ثواب لے لیں لیکن اگر وہ شخص کام نہ کرے تو کس کی طرف سے رنجیدہ ہونا صحیح نہیں۔ اور اسی سے یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ کسی طرح کا زور ڈال کر سفارش کرنا صحیح نہیں۔ جس شخص پر کوئی کام کرنا واجب نہیں وہ کرے یا نہ کرے خوشی کا سودا ہے، دباؤ ڈال کر کام کروانا سفارش کے اصول کے خلاف ہے۔ مسئلہ : کسی بھی طرح کی سفارش پر کسی طرح کی کوئی رقم یا ہدیہ لینا حلال نہیں اگر کچھ لے لیا تو وہ رشوت کے حکم میں ہوگا اور حرام ہوگا۔ اخیر میں فرمایا (وَ کَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا) (اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے) اسے ہر چیز پر قدرت ہے وہ نیکی پر ثواب دے اور برائی پر عذاب دے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ لفظ مقیتا کے بارے میں امام راغب مفردات میں لکھتے ہیں : قیل مقتدراً و قیل حافظا وقیل شاھداً یعنی مقیت کا ترجمہ تینوں طرح کیا گیا، قدرت رکھنے والا، محافظت کرنے والا اور ہر چیز کی اطلاع رکھنے والا، مفردات القرآن میں تو اتنا ہی لکھا ہے لیکن معالم التنزیل میں اس کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے کہ یوصل القوت الی کل حیوان یعنی وہ ہر حیوان کی طرف اس کی خوراک کو پہنچاتا ہے۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ روزی تقسیم فرمانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اگر کسی کی سفارش نہ مانی گئی تو جس کے لیے سفارش ہے اس کی روزی میں کچھ فرق نہ پڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو روزی جس کے لیے تقسیم فرما دی ہے وہ اسے ملنی ضرور ہے۔
Top