Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا
: اور جب
حُيِّيْتُمْ
: تمہیں دعا دے
بِتَحِيَّةٍ
: کسی دعا (سلام) سے
فَحَيُّوْا
: تو تم دعا دو
بِاَحْسَنَ
: بہتر
مِنْھَآ
: اس سے
اَوْ
: یا
رُدُّوْھَا
: وہی لوٹا دو (کہدو)
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلٰي
: پر (کا)
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
حَسِيْبًا
: حساب کرنے والا
اور جب تمہیں کسی تحیہ کے ذریعہ دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی دعا دے دو یا اسی کو لوٹا دو ، بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
سلام اور جواب سلام کے احکام و مسائل لفظ حُیِّیْتُمْ باب تفعیل سے بروزن سُمِّیْتُمْ صیغہ جمع مذکر ہے اور فَحَیُّوْا اسی سے امر کا صیغہ ہے۔ اس کا مصدر تَحِیَّۃٌ ہے اس کا اصل معنی ہے حیاک اللّٰہ کہنا یعنی یہ دعا دینا کہ اللہ تجھے زندہ رکھے۔ یہ تو اس کا اصل لغوی معنی ہوا۔ پھر لفظ تحیۃ ملاقات کے وقت سلام کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا کیونکہ سلام میں زندگی کے ساتھ سلامتی کی بھی دعا ہے۔ سورة نور میں ارشاد فرمایا (فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ) پھر جب تم گھر جانے لگو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو دعا کے طور پر جو خدا کی طرف سے مقرر ہے برکت والی عمدہ چیز ہے۔ اس لیے بعض اکابر نے اِذَا حُیِّیْتُمْ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے۔ سلام کی ابتداء : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کے اندر روح پھونک دی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا ان کے رب نے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فرمایا (اور فرمایا) کہ اے آدم ! ان فرشتوں کی طرف جاؤ جو (وہاں) بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو جاکر السلام علیکم کہو، حضرت آدم (علیہ السلام) نے وہاں پہنچ کر السلام علیکم کہا تو فرشتوں نے اس کے جواب میں علیک السلام ورحمۃ اللہ کہا پھر وہ واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ تحیہ ہے تمہارا اور آپس میں تمہارے بیٹوں گا۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ صفحہ 400) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسانوں میں سلام کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سب انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کو جا کر سلام کہو، انہوں نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے اس کا جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سلام تمہارا اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو اس طرح ایک دوسرے کو دعا دیا کریں، اللہ تعالیٰ کا دین اسلام ہے۔ اس میں دنیا و آخرت کی سلامتی ہے جب آپس میں ملاقات کریں تو ملاقات کرنے والا بھی سلامتی کی دعا دے یعنی السلام علیکم کہے اور جس کو سلام کیا وہ بھی اس کے جواب میں سلامتی کی دعا دے اور وعلیکم السلام کہے۔ دونوں طرف سے لفظ سلام کے ذریعہ ہر وقت باسلامت رہنے کی دعا دی جائے یہ سلامتی کسی وقت اور کسی حال کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ان کلمات کا تذکرہ جو غیر اقوام کے یہاں ملاقات کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں : یہ جو بعض قوموں میں گڈ مورننگ اور گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان میں اول تو سلامتی کے معنی کو پوری طرح ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ ان میں انسانوں کے بارے میں کوئی دعا ہے ہی نہیں وقت کو اچھا بتایا جاتا ہے پھر اس سے بطور استعارہ انسانوں کو اچھی حالت میں مراد لی جاتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان میں الفاظ میں دائمی سلامتی کی دعا نہیں ہے بلکہ اوقات مخصوصہ کے ساتھ دعا مقید ہے۔ اسلام نے جو ملاقات کا تحیہ بتایا ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور جامع ہے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں (ملاقات کے وقت) یوں کہا کرتے تھے انعم اللّٰہ بِک عِیْناً (اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی رکھے) اور اَنْعَمْ صَبَاحاً (تو صبح کے وقت میں اچھے حال میں رہے) اس کے بعد جب اسلام آیا تو ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔ (رواہ ابوداؤد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ملاقات کے وقت دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور ان کے رواج کے مطابق کلمات منہ سے نکالنا ممنوع ہے جو لوگ انگریزوں کے طریقے پر گڈ مورننگ وغیرہ کہتے ہیں یا عربوں کے رواج کے مطابق صباح الخیر یا مساء الخیر کہتے ہیں اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام میں ملاقات کے وقت مختلف الفاظ کہنے کا رواج ہے لیکن اسلام میں جو سلام کے الفاظ مشروع کیے گئے ہیں ان سے بڑھ کر کسی کے یہاں بھی کوئی ایسا کلمہ مروج نہیں جس میں اظہار محبت بھی ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی ہو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی اور ہر طرح کی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھے۔ لفظ السلام جہاں اپنا مصدری معنی رکھتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ شراح حدیث نے فرمایا ہے اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلامتی دینے والا ہے تمہیں اس کے حفظ وامان میں دیتا ہوں وہ تمہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔ سلام کی کثرت محبوب ہے : اسلام میں سلام کی کثرت بہت زیادہ مرغوب اور محبوب ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب تک تم مومن نہ ہوگے جنت میں داخل نہ ہوگے اور مومن نہ ہوگے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو گے (پھر فرمایا) کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ اس پر عمل کرو گے تو آپس میں محبت پیدا ہوگی ؟ پھر فرمایا آپس میں خوب سلام کو پھیلاؤ (رواہ مسلم صفحہ 54: ج 1) یہ سلام کا پھیلانا اور ایک دوسرے کو سلام کرنا ایمان کی بنیاد پر ہے جان پہچان کی بنیاد پر نہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان کو بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا اذا لَقِیْتَہٗ فَسَلِّمْ عَلَیْہٖ کہ جب تو مسلمان سے ملاقات کرے اس کو سلام کر۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 133) پھر جس طرح سلام کرنا حقوق مسلم میں سے ہے اسی طرح سلام کا جواب دینا بھی مسلم کے حقوق میں سے ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں (1) سلام کا جواب دینا (2) مریض کی عیادت کرنا (3) جنازوں کے ساتھ جانا (4) دعوت قبول کرنا (5) چھینکنے والے کا جواب دینا (یعنی جب وہ الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا) ۔ (رواہ مسلم صفحہ 213: ج 2) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے بہتر کون سا عمل ہے آپ نے فرمایا یہ کہ کھانا کھلایا کرے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان ہے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان نہیں ہے۔ (صحیح بخاری صفحہ 6: ج 1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو سلام کرے اس کے بعد اگر درمیان میں کوئی درخت یا دیوار یا پتھر کی آڑ ہوجائے اور پھر ملاقات ہوجائے تو پھر سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد) راستہ کے حقوق : گھروں سے باہر اگر راستوں میں بیٹھیں تو راستے کے حقوق ادا کریں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمہیں راستوں میں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو عرض کیا یا رسول اللہ راستہ کا حق کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ نظریں نیچی رکھنا (تاکہ کسی ایسی جگہ نہ پڑے جہاں نظر ڈالنا جائز نہیں) اور تکلیف دینے سے بچنا، اور سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔ (رواہ مسلم صفحہ 213: ج 2) کسی مجلس یا کسی گھر میں جائیں تو سلام کریں : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو اور اگر موقعہ مناسب جانو تو بیٹھ جاؤ، پھر جب (روانہ ہونے کے لیے) کھڑے ہو تو دوبارہ سلام کرو چونکہ جس طرح پہلی مرتبہ سلام کرنے کی اہمیت تھی دوسری مرتبہ سلام کرنا اہم ہے۔ (ترمذی و ابوداؤد) حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو اور جب وہاں سے چلنے لگو تو انہیں سلام کے ساتھ رخصت کرو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً کمافی المشکوٰۃ صفحہ 399) اپنے گھر والوں کو سلام : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے بٹوا ! جب تو اپنے گھر والوں کے پاس جائے تو سلام کر، یہ چیز تیرے لیے اور تیرے گھر والوں کے لیے برکت کا ذریعہ بنے گی۔ (رواہ الترمذی) ابتداء بالسلام کی فضیلت : سلام ابتداءً خود کرنے کی کوشش کی جائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا البادی بالسلام بری من الکبر یعنی جو شخص خود سے ابتداءً سلام کرے وہ تکبر سے بری ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 400) حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ لوگوں میں اللہ سے قریب تر وہ شخص ہے جو ابتداء خود سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد صفحہ 350: ج 2) ان روایات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کثرت سلام محبوب اور مرغوب ہے اور سلام اور سلام کا جواب دینا مسلم کے حقوق میں سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی کے گھر جائے تو گھر والوں کو سلام کرے اور جب وہاں سے چلنے لگے تب بھی سلام کرے، کسی مجلس میں پہنچے تو اس وقت سلام کرے، چلنے لگے تب بھی سلام کرے، اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرے۔ آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم اس کے سلام کا اس سے اچھا جواب دو یا (کم از کم) جواب میں اسی قدر الفاظ کہہ دو جتنے الفاظ سلام کرنے والے نے کہے ہیں۔ اگر کسی نے السلام علیکم کہا ہے تو اس کے جواب میں کم از کم وعلیکم السلام کہہ دیا جائے تاکہ واجب ادا ہوجائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے الفاظ پر اضافہ کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے جب فرشتوں کو خطاب کر کے السلام علیکم فرمایا تو انہوں نے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کردیا تھا۔ اگر سلام کرنے والا ورحمۃ اللہ بھی کہہ دے تو جواب دینے والا وبرکاتہ کا اضافہ کر دے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا السلام علیکم آپ نے اس کا جواب دے دیا پھر وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو دس نیکیاں ملیں، پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو بیس نیکیاں ملیں ایک تیسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو تیس نیکیاں ملیں ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہٗ آپ نے فرمایا اس کو چالیس نیکیاں ملیں اور یہ بھی فرمایا کہ اسی طرح فضائل بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ہے نیز سنن ترمذی میں بھی ہے لیکن اس میں مغفرتہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن بتایا ہے پھر فرمایا ہے وفی الباب عن ابی سعید و علی وسہل بن حنیف ؓ ۔ اور مفسرابن کثیر نے (صفحہ 531: ج 1) بحوالہ ابن جریر ایک روایت یوں نقل کی ہے کہ جب ایک شخص نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا وعلیک اور فرمایا کہ تو نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لہٰذا ہم نے اسی قدر واپس کردیا جتنا تم نے کہا۔ اس کے بعد مفسرابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ وبرکاتہ سے آگے سلام میں اضافہ نہیں ہے۔ مفسر قرطبی نے صفحہ 299: ج 5 بھی یہی لکھا ہے کہ فان قال سلام علیک ورحمۃ اللہ زدت فی ردک وبرکاتہ وھذا ھو النھایۃ فلامزید مطلب یہ ہے برکاتہ سے آگے اضافہ نہیں ہے۔ صاحب درمختار نے کتاب الحظر والا باحہ میں لکھا ہے ولا یزید الراد علی وبرکاتہ یعنی جواب میں وبرکاتہ سے زیادہ نہ کہا جائے۔ سنن ابوداؤد میں جو سلام کرنے والے کی طرف سے ومغفرتہ کا اضافہ ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ وبرکاتہ سے آگے بھی اضافہ درست ہے لیکن جس روایت ومغفرتہ کا اضافہ آیا ہے سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اسی لیے فقہاء نے اس کو نہیں لیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے عمل سے بھی حضرات فقہاء کی تائید ہوتی ہے۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ یمن کے ایک شخص نے ان کو سلام کیا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تک کہنے کے بعد کچھ اور اضافہ کردیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ان السلام انتھی الی البر کا تہ (یعنی سلام برکت تک ختم ہوگیا) امام محمد (رح) نے بھی اپنے مؤطا میں حضرت ابن عباس والی روایت کو لکھا ہے پھر فرمایا ہے وبھذا ناخذ اذا قال وبرکاتہ فلیکفف فان اتباع السنۃ افضل (یعنی ہم بھی اس کو اختیار کرتے ہیں کہ جب وہ برکاتہ کہہ دے تو ختم کر دے۔ کیونکہ سنت کا اتباع افضل ہے) ۔ حافظ ابن حجر ؓ نے فتح الباری میں ایسی احادیث جمع کی ہیں جن سے وبرکاتہ پر اضافہ ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن سب کے مجموعے سے ایک طرح کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ حافظ کی بات سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ کرنا اگر مسنون نہیں تو بہر حال جائز تو ہے ہی واللہ تعالیٰ اعلم۔ چند مسائل مسئلہ : سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے اور یہ ان چند چیزوں میں سے ہے جن میں سنت کا ثواب واجب سے بڑھا ہوا ہے۔ مسئلہ : جب کسی کے گھر جاناہو تو پہلے سلام کرے پھر اندر آنے کی اجازت مانگے۔ جس کے الفاظ حدیث شریف میں یوں آئے ہیں۔ السلام علیکم أاَدْخَلُ (تم پر سلام ہو کیا میں داخل ہوجاؤں) تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت طلب کرے اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے۔ بغیر اجازت نہ کسی کے گھر میں داخل ہو نہ اندر نظر ڈالے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے لاتاذنو المن لم یبداء بالسلام (کہ اسے اندر آنے کی اجازت نہ دو جو شروع میں سلام نہ کرے یعنی سلام کر کے اجازت نہ مانگے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 400۔ 401) مسئلہ : جب کوئی شخص کسی کے ذریعے سلام بھیجے تو سلام کے جواب میں سلام لانے والے کو بھی شریک کرے مثلاً یوں کہ (عَلَیْکَ وَ عَلَیْہِ السَّلَامْ ) ایک صحابی نے اپنے لڑکے کے ذریعے آنحضرت ﷺ کی خدمت سلام بھیجا تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا علیک وعلی ابیک السلام (تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام) ۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 354) مسئلہ : جب دو آدمیوں میں رنجش ہو قطع تعلق ہو اور سلام کلام بند ہو تو دونوں کو چاہیے کہ جلد سے جلد رنجش دور کریں تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھنا حرام ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ ملاقات کر رہے ہیں تو یہ ادھر کو اعراض کر رہا ہے اور وہ دوسری طرف اعراض کر رہا ہے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (رواہ البخاری صفحہ 897: ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ کسی مومن کے لیے حلال نہیں کسی مومن سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے جب تین دن گزر جائیں تو ملاقات کرے اور سلام کرے جس کو سلام کیا تھا اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو دونوں ثواب میں شریک ہوگئے اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو وہ گنہگار ہوا اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 17: ج 2) تین دن تک قطع تعلق کی اجازت یہ آخری حد ہے اس سے پہلے ہی تعلق صحیح کرنے کی کوشش کرلیں اور نفس کو آمادہ کرلیں چونکہ نفس متکبر ہوتا ہے اور جھکنا نہیں چاہتا اس لیے جو شخص سلام میں پہل کرے اس کی فضیلت زیادہ ہے۔ صحیح بخاری میں ہے وخیر ھما الذی یبداء بالسلام یعنی ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (کمافی حدیث ابی ایوب) مسئلہ : جو شخص سواری پر جا رہا ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے اور تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری صفحہ 92: ج 2) مسئلہ : اگر بیٹھی ہوئی جماعت کو کسی نے سلام کیا تو ایک شخص کا جواب دے دینا کافی ہے اور گزرنے والوں میں سے اگر ایک شخص سلام کرے تو یہ بھی سب کی طرف سے کافی ہے۔ (سنن ابو داؤد صفحہ 352: ج 2) مسئلہ : نماز پڑھنے میں اگر کسی کو زبان سے سلام کرے یا کسی کا زبان سے جواب دے اگرچہ بھول کر ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اور اگر نماز میں ہاتھ سے سلام کیا یا ہاتھ سے سلام کا جواب دیا تو یہ مکروہ ہے۔ مسئلہ : نماز پڑھنے والے اور تلاوت کرنے والے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہونے والے اور حدیث بیان کرنے والے اور خطبہ دینے والے اور خطبہ سننے والے اور علم دین پڑھنے پڑھانے میں جو شخص مشغول ہو اور جو شخص تلبیہ پڑھ رہا ہو اسی طرح جو قاضی قضا کے کام میں مشغول ہو ان سب کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اذان دینے والے اور اقامت کہنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ ان لوگوں کو کوئی شخص سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں۔ مسئلہ : جو لوگ شطرنج کھیل رہے ہوں یا اور کسی گناہ میں مشغول ہوں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے جو شخص قضائے حاجات کے لیے بیٹھا ہو اس کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : کافر کو سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : جوان عورتیں جو اجنبی ہیں یعنی محرم نہیں ہیں ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔ مسئلہ : سونے والے کو اور جو شخص نشہ پئے ہوئے ہے ان کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : گانے بجانے والے اور کبوتر اڑانے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ مسئلہ : فاسق معلن جو علانیہ گناہ کرتا ہو کو بھی سلام کرنا ممنوع ہے۔ (یہ مسائل در المختار اور رد المحتار صفحہ 414۔ 415: ج 1 میں مذکور ہیں) اس کے بعد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا) (بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے) ہر شخص کو اس کا استحضار رہنا چاہیے تاکہ ادائیگی حقوق میں کوتاہی نہ کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد (جس میں سلام کا جواب بھی داخل ہے) سب کی ادائیگی کرتا رہے۔
Top