Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں کسی تحیہ کے ذریعہ دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی دعا دے دو یا اسی کو لوٹا دو ، بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
سلام اور جواب سلام کے احکام و مسائل لفظ حُیِّیْتُمْ باب تفعیل سے بروزن سُمِّیْتُمْ صیغہ جمع مذکر ہے اور فَحَیُّوْا اسی سے امر کا صیغہ ہے۔ اس کا مصدر تَحِیَّۃٌ ہے اس کا اصل معنی ہے حیاک اللّٰہ کہنا یعنی یہ دعا دینا کہ اللہ تجھے زندہ رکھے۔ یہ تو اس کا اصل لغوی معنی ہوا۔ پھر لفظ تحیۃ ملاقات کے وقت سلام کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا کیونکہ سلام میں زندگی کے ساتھ سلامتی کی بھی دعا ہے۔ سورة نور میں ارشاد فرمایا (فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ) پھر جب تم گھر جانے لگو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو دعا کے طور پر جو خدا کی طرف سے مقرر ہے برکت والی عمدہ چیز ہے۔ اس لیے بعض اکابر نے اِذَا حُیِّیْتُمْ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے۔ سلام کی ابتداء : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کے اندر روح پھونک دی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا ان کے رب نے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فرمایا (اور فرمایا) کہ اے آدم ! ان فرشتوں کی طرف جاؤ جو (وہاں) بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو جاکر السلام علیکم کہو، حضرت آدم (علیہ السلام) نے وہاں پہنچ کر السلام علیکم کہا تو فرشتوں نے اس کے جواب میں علیک السلام ورحمۃ اللہ کہا پھر وہ واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ تحیہ ہے تمہارا اور آپس میں تمہارے بیٹوں گا۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ صفحہ 400) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسانوں میں سلام کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سب انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کو جا کر سلام کہو، انہوں نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے اس کا جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سلام تمہارا اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو اس طرح ایک دوسرے کو دعا دیا کریں، اللہ تعالیٰ کا دین اسلام ہے۔ اس میں دنیا و آخرت کی سلامتی ہے جب آپس میں ملاقات کریں تو ملاقات کرنے والا بھی سلامتی کی دعا دے یعنی السلام علیکم کہے اور جس کو سلام کیا وہ بھی اس کے جواب میں سلامتی کی دعا دے اور وعلیکم السلام کہے۔ دونوں طرف سے لفظ سلام کے ذریعہ ہر وقت باسلامت رہنے کی دعا دی جائے یہ سلامتی کسی وقت اور کسی حال کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ان کلمات کا تذکرہ جو غیر اقوام کے یہاں ملاقات کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں : یہ جو بعض قوموں میں گڈ مورننگ اور گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان میں اول تو سلامتی کے معنی کو پوری طرح ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ ان میں انسانوں کے بارے میں کوئی دعا ہے ہی نہیں وقت کو اچھا بتایا جاتا ہے پھر اس سے بطور استعارہ انسانوں کو اچھی حالت میں مراد لی جاتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان میں الفاظ میں دائمی سلامتی کی دعا نہیں ہے بلکہ اوقات مخصوصہ کے ساتھ دعا مقید ہے۔ اسلام نے جو ملاقات کا تحیہ بتایا ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور جامع ہے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں (ملاقات کے وقت) یوں کہا کرتے تھے انعم اللّٰہ بِک عِیْناً (اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی رکھے) اور اَنْعَمْ صَبَاحاً (تو صبح کے وقت میں اچھے حال میں رہے) اس کے بعد جب اسلام آیا تو ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔ (رواہ ابوداؤد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ملاقات کے وقت دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور ان کے رواج کے مطابق کلمات منہ سے نکالنا ممنوع ہے جو لوگ انگریزوں کے طریقے پر گڈ مورننگ وغیرہ کہتے ہیں یا عربوں کے رواج کے مطابق صباح الخیر یا مساء الخیر کہتے ہیں اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام میں ملاقات کے وقت مختلف الفاظ کہنے کا رواج ہے لیکن اسلام میں جو سلام کے الفاظ مشروع کیے گئے ہیں ان سے بڑھ کر کسی کے یہاں بھی کوئی ایسا کلمہ مروج نہیں جس میں اظہار محبت بھی ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی ہو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی اور ہر طرح کی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھے۔ لفظ السلام جہاں اپنا مصدری معنی رکھتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ شراح حدیث نے فرمایا ہے اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلامتی دینے والا ہے تمہیں اس کے حفظ وامان میں دیتا ہوں وہ تمہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔ سلام کی کثرت محبوب ہے : اسلام میں سلام کی کثرت بہت زیادہ مرغوب اور محبوب ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب تک تم مومن نہ ہوگے جنت میں داخل نہ ہوگے اور مومن نہ ہوگے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو گے (پھر فرمایا) کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ اس پر عمل کرو گے تو آپس میں محبت پیدا ہوگی ؟ پھر فرمایا آپس میں خوب سلام کو پھیلاؤ (رواہ مسلم صفحہ 54: ج 1) یہ سلام کا پھیلانا اور ایک دوسرے کو سلام کرنا ایمان کی بنیاد پر ہے جان پہچان کی بنیاد پر نہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان کو بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا اذا لَقِیْتَہٗ فَسَلِّمْ عَلَیْہٖ کہ جب تو مسلمان سے ملاقات کرے اس کو سلام کر۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 133) پھر جس طرح سلام کرنا حقوق مسلم میں سے ہے اسی طرح سلام کا جواب دینا بھی مسلم کے حقوق میں سے ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں (1) سلام کا جواب دینا (2) مریض کی عیادت کرنا (3) جنازوں کے ساتھ جانا (4) دعوت قبول کرنا (5) چھینکنے والے کا جواب دینا (یعنی جب وہ الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا) ۔ (رواہ مسلم صفحہ 213: ج 2) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے بہتر کون سا عمل ہے آپ نے فرمایا یہ کہ کھانا کھلایا کرے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان ہے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان نہیں ہے۔ (صحیح بخاری صفحہ 6: ج 1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو سلام کرے اس کے بعد اگر درمیان میں کوئی درخت یا دیوار یا پتھر کی آڑ ہوجائے اور پھر ملاقات ہوجائے تو پھر سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد) راستہ کے حقوق : گھروں سے باہر اگر راستوں میں بیٹھیں تو راستے کے حقوق ادا کریں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمہیں راستوں میں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو عرض کیا یا رسول اللہ راستہ کا حق کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ نظریں نیچی رکھنا (تاکہ کسی ایسی جگہ نہ پڑے جہاں نظر ڈالنا جائز نہیں) اور تکلیف دینے سے بچنا، اور سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔ (رواہ مسلم صفحہ 213: ج 2) کسی مجلس یا کسی گھر میں جائیں تو سلام کریں : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو اور اگر موقعہ مناسب جانو تو بیٹھ جاؤ، پھر جب (روانہ ہونے کے لیے) کھڑے ہو تو دوبارہ سلام کرو چونکہ جس طرح پہلی مرتبہ سلام کرنے کی اہمیت تھی دوسری مرتبہ سلام کرنا اہم ہے۔ (ترمذی و ابوداؤد) حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو اور جب وہاں سے چلنے لگو تو انہیں سلام کے ساتھ رخصت کرو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً کمافی المشکوٰۃ صفحہ 399) اپنے گھر والوں کو سلام : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے بٹوا ! جب تو اپنے گھر والوں کے پاس جائے تو سلام کر، یہ چیز تیرے لیے اور تیرے گھر والوں کے لیے برکت کا ذریعہ بنے گی۔ (رواہ الترمذی) ابتداء بالسلام کی فضیلت : سلام ابتداءً خود کرنے کی کوشش کی جائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا البادی بالسلام بری من الکبر یعنی جو شخص خود سے ابتداءً سلام کرے وہ تکبر سے بری ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 400) حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ لوگوں میں اللہ سے قریب تر وہ شخص ہے جو ابتداء خود سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد صفحہ 350: ج 2) ان روایات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کثرت سلام محبوب اور مرغوب ہے اور سلام اور سلام کا جواب دینا مسلم کے حقوق میں سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی کے گھر جائے تو گھر والوں کو سلام کرے اور جب وہاں سے چلنے لگے تب بھی سلام کرے، کسی مجلس میں پہنچے تو اس وقت سلام کرے، چلنے لگے تب بھی سلام کرے، اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرے۔ آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم اس کے سلام کا اس سے اچھا جواب دو یا (کم از کم) جواب میں اسی قدر الفاظ کہہ دو جتنے الفاظ سلام کرنے والے نے کہے ہیں۔ اگر کسی نے السلام علیکم کہا ہے تو اس کے جواب میں کم از کم وعلیکم السلام کہہ دیا جائے تاکہ واجب ادا ہوجائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے الفاظ پر اضافہ کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے جب فرشتوں کو خطاب کر کے السلام علیکم فرمایا تو انہوں نے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کردیا تھا۔ اگر سلام کرنے والا ورحمۃ اللہ بھی کہہ دے تو جواب دینے والا وبرکاتہ کا اضافہ کر دے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا السلام علیکم آپ نے اس کا جواب دے دیا پھر وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو دس نیکیاں ملیں، پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو بیس نیکیاں ملیں ایک تیسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو تیس نیکیاں ملیں ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہٗ آپ نے فرمایا اس کو چالیس نیکیاں ملیں اور یہ بھی فرمایا کہ اسی طرح فضائل بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ہے نیز سنن ترمذی میں بھی ہے لیکن اس میں مغفرتہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن بتایا ہے پھر فرمایا ہے وفی الباب عن ابی سعید و علی وسہل بن حنیف ؓ ۔ اور مفسرابن کثیر نے (صفحہ 531: ج 1) بحوالہ ابن جریر ایک روایت یوں نقل کی ہے کہ جب ایک شخص نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا وعلیک اور فرمایا کہ تو نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لہٰذا ہم نے اسی قدر واپس کردیا جتنا تم نے کہا۔ اس کے بعد مفسرابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ وبرکاتہ سے آگے سلام میں اضافہ نہیں ہے۔ مفسر قرطبی نے صفحہ 299: ج 5 بھی یہی لکھا ہے کہ فان قال سلام علیک ورحمۃ اللہ زدت فی ردک وبرکاتہ وھذا ھو النھایۃ فلامزید مطلب یہ ہے برکاتہ سے آگے اضافہ نہیں ہے۔ صاحب درمختار نے کتاب الحظر والا باحہ میں لکھا ہے ولا یزید الراد علی وبرکاتہ یعنی جواب میں وبرکاتہ سے زیادہ نہ کہا جائے۔ سنن ابوداؤد میں جو سلام کرنے والے کی طرف سے ومغفرتہ کا اضافہ ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ وبرکاتہ سے آگے بھی اضافہ درست ہے لیکن جس روایت ومغفرتہ کا اضافہ آیا ہے سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اسی لیے فقہاء نے اس کو نہیں لیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے عمل سے بھی حضرات فقہاء کی تائید ہوتی ہے۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ یمن کے ایک شخص نے ان کو سلام کیا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تک کہنے کے بعد کچھ اور اضافہ کردیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ان السلام انتھی الی البر کا تہ (یعنی سلام برکت تک ختم ہوگیا) امام محمد (رح) نے بھی اپنے مؤطا میں حضرت ابن عباس والی روایت کو لکھا ہے پھر فرمایا ہے وبھذا ناخذ اذا قال وبرکاتہ فلیکفف فان اتباع السنۃ افضل (یعنی ہم بھی اس کو اختیار کرتے ہیں کہ جب وہ برکاتہ کہہ دے تو ختم کر دے۔ کیونکہ سنت کا اتباع افضل ہے) ۔ حافظ ابن حجر ؓ نے فتح الباری میں ایسی احادیث جمع کی ہیں جن سے وبرکاتہ پر اضافہ ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن سب کے مجموعے سے ایک طرح کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ حافظ کی بات سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ کرنا اگر مسنون نہیں تو بہر حال جائز تو ہے ہی واللہ تعالیٰ اعلم۔ چند مسائل مسئلہ : سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے اور یہ ان چند چیزوں میں سے ہے جن میں سنت کا ثواب واجب سے بڑھا ہوا ہے۔ مسئلہ : جب کسی کے گھر جاناہو تو پہلے سلام کرے پھر اندر آنے کی اجازت مانگے۔ جس کے الفاظ حدیث شریف میں یوں آئے ہیں۔ السلام علیکم أاَدْخَلُ (تم پر سلام ہو کیا میں داخل ہوجاؤں) تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت طلب کرے اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے۔ بغیر اجازت نہ کسی کے گھر میں داخل ہو نہ اندر نظر ڈالے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے لاتاذنو المن لم یبداء بالسلام (کہ اسے اندر آنے کی اجازت نہ دو جو شروع میں سلام نہ کرے یعنی سلام کر کے اجازت نہ مانگے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 400۔ 401) مسئلہ : جب کوئی شخص کسی کے ذریعے سلام بھیجے تو سلام کے جواب میں سلام لانے والے کو بھی شریک کرے مثلاً یوں کہ (عَلَیْکَ وَ عَلَیْہِ السَّلَامْ ) ایک صحابی نے اپنے لڑکے کے ذریعے آنحضرت ﷺ کی خدمت سلام بھیجا تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا علیک وعلی ابیک السلام (تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام) ۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 354) مسئلہ : جب دو آدمیوں میں رنجش ہو قطع تعلق ہو اور سلام کلام بند ہو تو دونوں کو چاہیے کہ جلد سے جلد رنجش دور کریں تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھنا حرام ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ ملاقات کر رہے ہیں تو یہ ادھر کو اعراض کر رہا ہے اور وہ دوسری طرف اعراض کر رہا ہے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (رواہ البخاری صفحہ 897: ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ کسی مومن کے لیے حلال نہیں کسی مومن سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے جب تین دن گزر جائیں تو ملاقات کرے اور سلام کرے جس کو سلام کیا تھا اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو دونوں ثواب میں شریک ہوگئے اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو وہ گنہگار ہوا اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 17: ج 2) تین دن تک قطع تعلق کی اجازت یہ آخری حد ہے اس سے پہلے ہی تعلق صحیح کرنے کی کوشش کرلیں اور نفس کو آمادہ کرلیں چونکہ نفس متکبر ہوتا ہے اور جھکنا نہیں چاہتا اس لیے جو شخص سلام میں پہل کرے اس کی فضیلت زیادہ ہے۔ صحیح بخاری میں ہے وخیر ھما الذی یبداء بالسلام یعنی ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (کمافی حدیث ابی ایوب) مسئلہ : جو شخص سواری پر جا رہا ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے اور تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری صفحہ 92: ج 2) مسئلہ : اگر بیٹھی ہوئی جماعت کو کسی نے سلام کیا تو ایک شخص کا جواب دے دینا کافی ہے اور گزرنے والوں میں سے اگر ایک شخص سلام کرے تو یہ بھی سب کی طرف سے کافی ہے۔ (سنن ابو داؤد صفحہ 352: ج 2) مسئلہ : نماز پڑھنے میں اگر کسی کو زبان سے سلام کرے یا کسی کا زبان سے جواب دے اگرچہ بھول کر ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اور اگر نماز میں ہاتھ سے سلام کیا یا ہاتھ سے سلام کا جواب دیا تو یہ مکروہ ہے۔ مسئلہ : نماز پڑھنے والے اور تلاوت کرنے والے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہونے والے اور حدیث بیان کرنے والے اور خطبہ دینے والے اور خطبہ سننے والے اور علم دین پڑھنے پڑھانے میں جو شخص مشغول ہو اور جو شخص تلبیہ پڑھ رہا ہو اسی طرح جو قاضی قضا کے کام میں مشغول ہو ان سب کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اذان دینے والے اور اقامت کہنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ ان لوگوں کو کوئی شخص سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں۔ مسئلہ : جو لوگ شطرنج کھیل رہے ہوں یا اور کسی گناہ میں مشغول ہوں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے جو شخص قضائے حاجات کے لیے بیٹھا ہو اس کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : کافر کو سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : جوان عورتیں جو اجنبی ہیں یعنی محرم نہیں ہیں ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔ مسئلہ : سونے والے کو اور جو شخص نشہ پئے ہوئے ہے ان کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : گانے بجانے والے اور کبوتر اڑانے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ مسئلہ : فاسق معلن جو علانیہ گناہ کرتا ہو کو بھی سلام کرنا ممنوع ہے۔ (یہ مسائل در المختار اور رد المحتار صفحہ 414۔ 415: ج 1 میں مذکور ہیں) اس کے بعد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا) (بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے) ہر شخص کو اس کا استحضار رہنا چاہیے تاکہ ادائیگی حقوق میں کوتاہی نہ کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد (جس میں سلام کا جواب بھی داخل ہے) سب کی ادائیگی کرتا رہے۔
Top