Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا
: اور نہیں
كَانَ
: ہے
لِمُؤْمِنٍ
: کسی مسلمان کے لیے
اَنْ يَّقْتُلَ
: کہ وہ قتل کرے
مُؤْمِنًا
: کسی مسلمان
اِلَّا خَطَئًا
: مگر غلطی سے
وَمَنْ
: اور جو
قَتَلَ
: قتل کرے
مُؤْمِنًا
: کسی مسلمان
خَطَئًا
: غلطی سے
فَتَحْرِيْرُ
: تو آزاد کرے
رَقَبَةٍ
: ایک گردن (غلام)
مُّؤْمِنَةٍ
: مسلمان
وَّدِيَةٌ
: اور خون بہا
مُّسَلَّمَةٌ
: حوالہ کرنا
اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ
: اس کے وارثوں کو
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
يَّصَّدَّقُوْا
: وہ معاف کردیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ
: ہو
مِنْ
: سے
قَوْمٍ عَدُوٍّ
: دشمن قوم
لَّكُمْ
: تمہاری
وَھُوَ
: اور وہ
مُؤْمِنٌ
: مسلمان
فَتَحْرِيْرُ
: تو آزاد کردے
رَقَبَةٍ
: ایک گردن (غلام)
مُّؤْمِنَةٍ
: مسلمان
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَ
: ہو
مِنْ قَوْمٍ
: ایسی قوم سے
بَيْنَكُمْ
: تمہارے درمیان
وَبَيْنَھُمْ
: اور ان کے درمیان
مِّيْثَاقٌ
: عہد (معاہدہ
فَدِيَةٌ
: تو خون بہا
مُّسَلَّمَةٌ
: حوالہ کرنا
اِلٰٓى اَھْلِهٖ
: اس کے وارثوں کو
وَتَحْرِيْرُ
: اور آزاد کرنا
رَقَبَةٍ
: ایک گردن (غلام)
مُّؤْمِنَةٍ
: مسلمان
فَمَنْ
: سو جو
لَّمْ يَجِدْ
: نہ پائے
فَصِيَامُ
: تو روزے رکھے
شَهْرَيْنِ
: دو ماہ
مُتَتَابِعَيْنِ
: لگاتار
تَوْبَةً
: توبہ
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اور کسی مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر خطا کے طور پر۔ اور جو شخص کسی مومن کو بطور خطا قتل کر دے تو اس پر واجب ہے کہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور اس کے خاندان والوں کو دیت ادا کرے الایہ کہ وہ لوگ معاف کردیں اور اگر وہ مقتول ایسی قوم میں سے ہو جو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مومن ہے تو ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہے اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو تو دیت بھی واجب ہے جو اس کے خاندان والوں کے سپرد کردی جائے اور ایک مومن غلام آزاد کرنا بھی واجب ہے پھر جس شخص کو غلام نہ ملے تو وہ لگا تار دو ماہ کے روزے رکھے بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوئی ہے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔
قتل خطا کے مسائل گزشتہ آیات میں قتل و قتال کا ذکر تھا یہاں قتل کے کچھ دنیوی اور اخروی احکام بیان فرمائے ہیں، قتل عمد میں تو قصاص ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کے رکوع 21 میں گزر چکا ہے اور قتل خطا میں دیت اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے، مومن غلام نہ ملے تو دو ماہ کے لگا تار روزے رکھنا فرض ہے، اولاً تو یہ فرمایا کہ کسی مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کر دے، قتل کرنا ہر اس جان کا گناہ کبیرہ ہے جس کی حفاظت شرعاً واجب ہو اس میں ذمی اور معاہد کا قتل بھی داخل ہے۔ جب ذمی اور معاہد کا قتل بھی حرام ہے تو مومن کا قتل کرنا بطور اولیٰ حرام ہوا۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ ) کہ کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہو مگر حق کے ساتھ قتل کرسکتے ہو، کافر حربی کو جو کسی معاہدہ میں شامل نہیں ہے اور جو مستامن بھی نہیں ہے اس کا قتل کرنا جائز ہے، اور جو شخص محصن ہوتے ہوئے زنا کرلے وہ بھی قتل کیا جائے گا۔ (یعنی اسے سنگساری کی سزا دی جائے گی) اور جو شخص کسی کو عمداً قتل کر دے جس کا شرعاً قتل کرنا حلال نہیں ہے اس کے قتل کرنے سے قصاص لازم ہوگا۔ مومن کو قتل کرنے کا بہت بڑا گناہ ہے اور اس پر بہت سخت وعید قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے لہٰذا کسی مومن سے یہ تصور ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے مومن بھائی کو قصداً قتل کردے ہاں خطا یعنی غلطی سے کوئی قتل ہوجائے تو یہ دوسری بات ہے۔ غلطی سے قتل ہوجانے کو قتل خطا سے تعبیر کیا جاتا ہے، قتل خطا کی دو صورتیں ہیں خطافی القصد اور خطافی الفعل، خطافی القصد یہ ہے کہ اس نے کسی چیز کو دیکھا اسے شکار سمجھ کر تیرمار دیا اور وہ شکار نہ تھا بلکہ کوئی آدمی تھا یا اس نے یہ سمجھا کہ سامنے کافر حربی کھڑا ہے اس کو مار دیا بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مسلمان تھا اور خطافی الفعل یہ ہے کہ کسی نشانہ پر تیر پھینکے اور وہ تیر کسی آدمی کو لگ جائے ان دونوں صورتوں میں کفارہ بھی واجب ہوتا ہے اور دیت بھی واجب ہوتی ہے، دیت خون بہا کو کہتے ہیں یعنی جان کے بدلہ جو مال دیا جائے وہ دیت ہے یہ لفظ اصل میں وَدْیٌ تھا۔ وَزنٌ اور وَعْدٌ عِدَۃٌکی طرح اس کا فاکلمہ یعنی واو حذف کردیا گیا اور آخر میں اس کے عوض تالگا دی گئی۔ ودی یدی لفیف مفروق ہے جس کا معنی بہنے کا ہے۔ چونکہ خون بہانے کا عوض دیا جاتا ہے اس لیے اسے دیت کہتے ہیں۔ شریعت مطہرہ کے قانون میں دیت اور قصاص جانوں کی حفاظت کے لیے مشروع کیے گئے ہیں افسوس ہے کہ حکومتوں کے ذمہ دار جو اسلام سے انتساب رکھتے ہیں وہ دیگر احکام شریعت کی طرح ان احکام کو بھی عمل میں نہیں لاتے لہٰذا جانیں بےقیمت ہو کر رہ گئی ہیں۔ بعض ممالک میں جہاں دیت کی ادائیگی کرانے کا اہتمام ہے وہاں بڑی حد تک جانوں کی حفاظت ہے۔ دیت اور کفارہ ادا کرنے کا حکم : آیت شریفہ میں یہ بتانے کے بعد کہ کسی مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ کسی مومن کو قتل کرے، اولاً دیت قتل خطا کا عمومی حکم بیان فرمایا، چناچہ ارشاد ہے (وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَھْلِہٖٓ) یعنی جو شخص کسی مومن کو خطاً قتل کر دے تو اس پر یہ فرض ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا ایک باندی آزاد کرے اور ان کا مومن ہونا شرط ہے اور دیت بھی ادا کرے جو مقتول کے وارثوں کے سپرد کردی جائے پھر فرمایا اِلاَّ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاکہ اگر یہ لوگ (یعنی وارثین) اس قاتل پر دیت کو صدقہ کردیں یعنی معاف کردیں تو یہ دیت معاف ہوئے گی اگر سب معاف نہ کریں تو جو شخص معاف کر دے گا اس کا حصہ معاف ہوجائے گا۔ اس کے بعد فرمایا (فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ) یعنی اگر مقتول ایسی جماعت سے ہو جن سے تمہاری دشمنی ہے یعنی وہ حربی کافروں میں رہتا ہے خود تو وہ مومن ہے لیکن اس کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور ان لوگوں سے صلح بھی نہیں ہے تو بطور کفارہ ایک رقبہ یعنی مومن غلام یا باندی آزاد کرنا ہوگا۔ رہی دیت تو وہ اس لیے واجب نہ ہوگی کہ اس کے متعلقین کافر ہیں اور دیت میراث کے اصول پر تقسیم ہوتی ہے اور چونکہ کافر اور مومن کے درمیان میراث نہیں چلتی اس لیے دیت واجب نہ ہوگی، کسی کو بھی نہ دی جائے گی۔ غلام آزاد کرنا یا دو ماہ کے روزے : پھر فرمایا (وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیْۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ) یعنی مومن مقتول اگر کسی ایسی قوم سے ہو جن کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو تو اگرچہ وہ قوم کافر ہے لیکن یہ مقتول چونکہ مومن سے اس لیے اس کے قاتل پر دیت واجب ہوگی جو اس کے خاندان کی طرف سپرد کردی جائے گی بشرطیکہ اس کے خاندان میں اہل اسلام موجود ہوں اور اگر ان میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے تو دیت واجب نہ ہوگی، البتہ رقبہ مومنہ آزاد کرنا پھر بھی واجب ہوگا۔ (مزید تشریح آئندہ صفحہ پر ملا حظہ فرمائیں) ۔ واضح رہے کہ قتل مومن میں دیت کا اور تحریر رقبہ یعنی غلام آزاد کرنے کا جو حکم ہے یہ صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ مقتول ایسی قوم میں سے ہو جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو بلکہ دارالاسلام میں مسلمانوں کے درمیان ہوتے ہوئے کوئی مومن کسی مومن کو خطاً قتل کر دے تب بھی دیت اور تحریر رقبہ واجب ہے۔ (روح المعانی صفحہ 114: ج 5) اس کے بعد فرمایا (فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعِیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ) کہ جو رقبہ یعنی غلام باندی نہ پائے (مثلاً غلام باندی ملتے ہی نہ ہوں کمافی ھذا الزمان یا ملتے تو ہوں لیکن خریداری کی طاقت نہ ہو) تو دو مہینے کے روزے لگا تار رکھے ان روزوں میں رمضان المبارک کا مہینہ نہ ہو۔ رمضان کے علاوہ پورے دو مہینوں کے روزے ہوں یہ غلام آزاد کرنے کی جگہ روزے رکھنا بطور کفارہ ہے۔ دیت بہر حال واجب رہے گی۔ پھر فرمایا (وَ کَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا) کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اسے قاتل کا بھی علم ہے اور مقتول کا بھی اگر کسی نے قتل کردیا اور بندوں کو حال معلوم نہ ہوا قاضی تک بات نہ پہنچی تو یہ نہ سمجھے کہ دونوں جہاں میں میرا چھٹکارا ہوگیا جس کی شریعت ہے وہ دیکھنے والا اور جاننے والا ہے۔ وہ آخرت کے دن احکام کے خلاف ورزی کی سزا دیدے گا، نیز وہ حکیم بھی ہے اس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں، دیت اور تحریر رقبہ وغیرہ جو بھی کچھ احکام بندوں کے لیے مشروع فرمائے ہیں ان سب میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔ تنبیہ : (وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاق) میں چونکہ لفظ (وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ) مذکور نہیں ہے اس لیے بعض فقہاء نے اس کو ذمی اور معاہد کے قتل پر محمول کیا ہے۔ علامہ قرطبی اپنی کتاب احکام القرآن صفحہ 325: ج 3 میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور شعبی اور نخعی اور شافعی کا قول ہے اور طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، پھر بحث کے ختم پر بعض علماء کا قول نقل کیا یہ مضمون عرب کے ان مشرکوں کے بارے میں تھا جنہوں نے حضور اقدس ﷺ سے اس بات کا معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں گے یا ان کو جنگ کا اعلان کردیا جائے گا یہ معاہدہ ایک مخصوص میعاد کے لیے تھا اس زمانہ میں ان میں سے کوئی شخص مقتول ہوجاتا تو دیت اور کفارہ دونوں واجب ہوتے تھے پھر جب آیت کریمہ (بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) نازل ہوئی تو یہ معاہدہ بھی ختم اور اس کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے جو کچھ التزام کیا گیا تھا وہ بھی ختم اب یہ حکم باقی نہیں رہا۔ مسائل متعلقہ دیت، مسئلہ : قتل خطا میں ایک جان کی دیت سواونٹ ہیں جن میں سے بیس بنت مخاض اور بیس بنت لبون اور بیس ابن مخاض اور بیس حقے اور بیس جذعے ہوں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے اسی طرح مروی ہے۔ (اونٹوں کے یہ القاب ان کی عمروں کے اعتبار سے ہیں اہل عرب نے اونٹوں کے نام اس طرح رکھے تھے) ۔ مسئلہ : اگر اونٹوں کے علاوہ دوسرے مال سے دیت دی جائے تو ہزار دینار سونے کے اور دس ہزار درہم چاندی کے دئیے جائیں۔ مسئلہ : حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دیت صرف انہی چیزوں سے ادا کی جائے گی یعنی اونٹوں سے اور دینار سے اور درہم سے، اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ گایوں اور بکریوں اور کپڑوں سے بھی ادا کی جاسکتی ہے اگر گایوں سے دیت ادا کی جائے تو سو گائیں دی جائیں اور بکریوں سے دی جائے تو ہزار بکریاں دی جائیں اور کپڑوں سے ادا کی جائے تو دو سو جوڑے ادا کیے جائیں کیونکہ حضرت عمر ؓ نے اس طرح مقرر فرما دیا تھا۔ مسئلہ : عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ مسئلہ : مسلم اور ذمی کی دیت برابر ہے (ذمی وہ کافر لوگ ہیں جو مسلمانوں کی عملداری میں رہتے ہیں) ۔ مسئلہ : دیت میراث کے حکم میں ہے جو مقتول کے شرعی ورثاء میں حسب حصص شرعیہ مقررہ فی الا وارث تقسیم کی جائے گی۔ اگر سب وارث معاف کردیں تو سب معاف ہوجائے گی اور بعض ورثاء معاف کریں تو ان کے حصے کے بقدر معاف ہوجائے گی۔ مسئلہ : قتل خطاً کی دیت عاقلہ پر واجب ہوتی ہے، اور کفارہ (تحریر رقبہ یا صیام شھرین متتابعین) بہر حال قاتل ہی پر واجب ہوتا ہے۔ عاقلہ سے اہل نصرت مراد ہیں جن میں قاتل رہتا سہتا ہو اور جو آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوں اہل نصرت نہ ہوں تو پھر قاتل کا قبیلہ ہی عاقلہ ہوگا، اس اجمال کی تفسیر کتب فقہ میں مذکور ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ دیت صرف قاتل کے کنبے اور قبیلے پر ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتل تو صرف ایک شخص نے کیا ہے اس کی دیت اہل قرابت یا اہل نصرت پر کیوں پڑے ؟ اس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احادیث اور آثار سے ایسا ہی ثابت ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بےاحتیاطی قاتل سے ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل نصرت اور اہل قرابت پر بھروسہ کرتا ہے اور ان کی نصرت اور حمیت کے پیش نظر وہ اپنے اندر ایک قوت محسوس کرتا ہے جن لوگوں پر اسے اعتماد ہے ان لوگوں کو بھی دیت کی ادائیگی میں شریک کرلیا جائے تو وہ بھی اپنے قبیلے کے ہر فرد متعلقین کو جن سے نصرت اور حمیت کا تعلق ہے بہت زیادہ احتیاط کی تاکید کریں گے اور اس طرح سے قتل خطا کا وجود بہت کم ہوگا، دیت کی ادائیگی کے خوف سے وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برابر منع کرتے رہیں گے کہ دیکھو قتل کا کوئی واقعہ نہ ہوجائے ورنہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ مسئلہ : عاقلہ سے تین سال میں تھوڑی تھوڑی کر کے دیت وصول کی جائے گی۔ قاتل کا اپنا قبیلہ اس لائق نہ ہو کہ دیت ادا کرسکے اور اس کے قبیلے سے جو قریب ترین قبیلہ نسب کے اعتبار سے ملتا ہو اس کو بھی ادائیگی دیت میں شامل کرلیا جائے گا، خود قاتل بھی عاقلہ کا ایک فرد ہوگا اور اس سے بھی حصہ مقررہ وصول کیا جائے گا، تفصیلات فقہ میں مذکورہ ہیں۔ قتل شبہ عمد : مسئلہ : قتل خطا کے علاوہ ایک قسم قتل عمد ہے اور ایک قتل شبہ عمد ہے قتل عمد کا ذکر آئندہ آیت میں انشاء اللہ تعالیٰ آ رہا ہے اور قتل شبہ عمد وہ ہے جس میں قصداً مارنے کا ارادہ کیا ہو لیکن دھار والے ہتھیار سے یا ہتھیار جیسی چیز سے (جس سے تفریق اعضاء ہو) نہ مارا ہو۔ مثلاً کوڑوں سے یا لاٹھی سے مارا ہو قتل شبہ عمد میں بھی دیت ہے اور کفارہ ہے اس کی دیت بھی عاقلہ پر ہوگی۔ دینار اور درہم سے دیت ادا کی جائے تو وہ تو اسی قد رہے جتنی قتل خطا میں ہے۔ اور اگر اونٹوں کے ذریعہ ادا کی جائے تو اس میں کچھ فرق ہے اور وہ یہ کہ اونٹ تو سو ہی ہوں گے لیکن اونٹوں کی پانچ قسموں کی بجائے چار قسمیں کی جائیں گی یعنی پچیس بنت مخاص اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے دینے ہوں گے، یہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے جو حضرت ابن مسعود ؓ سے منقول اور مروی ہے۔ مسئلہ : کفارہ قتل میں آزاد کرنے کے لیے لفظ رقبہ وارد ہوا ہے یہ لفظ لونڈی اور غلام دونوں کو شامل ہے جسے بھی آزاد کر دے گا کفارہ ادا ہوجائے بشرطیکہ مومن ہو اور اعضاء صحیح سالم ہوں۔ مسئلہ : اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے روزے رکھنا لازم ہوگا۔ اگر مرض کی وجہ سے تسلسل ٹوٹ جائے تو دو بارہ روزے رکھنے ہوں گے۔ البتہ عورت کو اگر درمیان میں حیض آجائے تو اس کی وجہ سے تسلسل باطل نہ ہوگا، اور رمضان کے روزے کفارہ کے حساب میں نہیں لگ سکتے۔ (کماذ کر ناہ من قبل) قتل کی کچھ اور صورتیں : قتل خطا کے ساتھ فقہاء نے دو چیزیں اور لکھی ہیں ایک مَا اُجری مجری الخطا اور دوسری القتل بسبب پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص سوتے ہوئے کسی پر پلٹ پڑے جس سے وہ قتل ہوجائے، اس میں کفارہ اور دیت دونوں واجب ہوتے ہیں اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کی ملک میں کنواں کھود دے یا کوئی پتھر رکھ دے جو کسی کی جان جانے کا سبب بن جائے۔ اس صورت میں بھی عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے لیکن اس میں کفارہ نہیں ہے۔ مسئلہ : اگر کسی حاملہ عورت کے پیٹ میں مار دیا جس کی وجہ سے مرا ہوا بچہ گرگیا تو اس میں ایک غلام یا پانچ سو درہم واجب ہوں گے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اس کو غزہ کہتے ہیں، اور اگر زندہ بچہ گر کر مرگیا تو اس کی پوری دیت دینی ہوگی۔ اور اگر مردہ بچہ گرنے کے بعد ماں مرگئی تو ماں کی پوری دیت دینی ہوگی اور بچے کا غزہ دینا ہوگا اور اگر چوٹ لگنے سے ماں مرگئی پھر بچہ زندہ نکل کرمر گیا تو ماں کی اور بچے کی علیحدہ علیحدہ دو دیتیں دینی ہوں گی اور حمل ساقط ہونے کی وجہ سے جو کچھ واجب ہوگا وہ اس بچے کے وارثوں پر تقسیم ہوگا۔ مسئلہ : جو شخص جانور پر سوار ہو کر جا رہا ہو اس کے ذمہ لازم ہے کہ سلامت روی کے ساتھ چلے اگر اس کی سواری نے کس کو روند دیا یا ٹکر مار دی یا دانتوں سے کاٹ لیا تو ان سب صورتوں میں ضمان لازم آئے گا۔ مسئلہ : اگر دو گھوڑے سوار جا رہے تھے جو آپس میں ٹکرا کر مرگئے تو ہر ایک کی عاقلہ پر دوسرے کی دیت واجب ہوگی۔ فائدہ : قصاص اور دیت کا نظام درحقیقت جانوں کی حفاظت کے لیے ہے اللہ کا قانون جاری نہ کرنے کی وجہ سے پورے عالم میں قتل و خون کا بازار گرم ہے قوانین شرعیہ کو نافذ نہ کرنے والے ظالم ہیں جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا (وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ ) (اور جو لوگ اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو اللہ نے نازل فرمایا وہ لوگ ظالم ہیں) ۔ وزرا حکومت زعمائے سیاست میں جو لوگ احکام خداوندیہ کو ظالمانہ کہتے ہیں وہ کافر ہیں اگرچہ وہ مسلمان ہونے کے مدعی ہوں۔ قصاص اور قتل کا قانون خداوندی نافذ نہ ہونے کی وجہ سے قاتلین کسی بھی جان کے قتل کرنے میں باک محسوس نہیں کرتے وہ بڑی بےباکی کے ساتھ جس کو چاہتے ہیں قتل کردیتے ہیں، اگر کسی کو قتل کردیا تو اول تو بغیر رشوت کے مقدمہ درج نہیں ہوتا اور درج ہوتا ہے تو قاتل کو سزا سے بچانے یا ہلکی سزا دلانے کے لیے قاتل سے رشوت لے کر رپورٹ کے الفاظ ہلکے کر دئیے جاتے ہیں جو قانون کی گرفت میں نہیں آتے پھر جب مقدمہ چلتا ہے اور اگر سارے مرحلوں سے گزر کر حاکم نے کسی قاتل کو سزا دے ہی دی تو وہ سزا قید و بند کی صورت میں ہوتی ہے۔ مقتول کے وارثوں کو ذرا بھی دیت نہیں ملتی، ان سب چیزوں نے امن عام کو برباد کر رکھا ہے، قصداً وارادۃً قتل کرنے کی واردات ہوتی رہتی ہے اور چونکہ قصاص جاری نہیں کیا جاتا اس لیے قاتل بےفکر ہو کر گھومتے پھرتے ہیں۔ حاکم بہت سے بہت عمر قید کا فیصلہ دے دیتا ہے (بشرطیکہ حاکم تک معاملہ پہنچا ہو اور اس نے ہمت کر کے فیصلہ دے دیا ہو) پھر یہ سزا اقتدار اعلیٰ کو رحم کی درخواست دینے سے یا حکومت کے بدل جانے سے (اقتدار جدید کی خوشی میں) معاف کردی جاتی ہے مقتول کے ورثاء دیت اور قصاص سے محروم پھرتے ہیں حالانکہ اولیاء مقتول کا حق کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ جو لوگ قانون الٰہی کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے نافذ نہیں کرتے اس کی بجائے دوسرے قانون نافذ کر رکھے ہیں اور ان کو موجودہ دور کے لیے مناسب سمجھتے ہیں (العیاذ باللہ) ان سب کا جواب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے (وَ کَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا) فرما کر دے دیا اللہ جل شانہٗ نے اپنے علم اور حکمت کے مطابق قوانین عطا فرمائے ہیں ان کے خلاف لکھنا یا بولنا اللہ کے علم اور حکمت پر اعتراض ہے۔
Top