Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کسی مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر خطا کے طور پر۔ اور جو شخص کسی مومن کو بطور خطا قتل کر دے تو اس پر واجب ہے کہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور اس کے خاندان والوں کو دیت ادا کرے الایہ کہ وہ لوگ معاف کردیں اور اگر وہ مقتول ایسی قوم میں سے ہو جو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مومن ہے تو ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہے اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو تو دیت بھی واجب ہے جو اس کے خاندان والوں کے سپرد کردی جائے اور ایک مومن غلام آزاد کرنا بھی واجب ہے پھر جس شخص کو غلام نہ ملے تو وہ لگا تار دو ماہ کے روزے رکھے بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوئی ہے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔
قتل خطا کے مسائل گزشتہ آیات میں قتل و قتال کا ذکر تھا یہاں قتل کے کچھ دنیوی اور اخروی احکام بیان فرمائے ہیں، قتل عمد میں تو قصاص ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کے رکوع 21 میں گزر چکا ہے اور قتل خطا میں دیت اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے، مومن غلام نہ ملے تو دو ماہ کے لگا تار روزے رکھنا فرض ہے، اولاً تو یہ فرمایا کہ کسی مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کر دے، قتل کرنا ہر اس جان کا گناہ کبیرہ ہے جس کی حفاظت شرعاً واجب ہو اس میں ذمی اور معاہد کا قتل بھی داخل ہے۔ جب ذمی اور معاہد کا قتل بھی حرام ہے تو مومن کا قتل کرنا بطور اولیٰ حرام ہوا۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ ) کہ کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہو مگر حق کے ساتھ قتل کرسکتے ہو، کافر حربی کو جو کسی معاہدہ میں شامل نہیں ہے اور جو مستامن بھی نہیں ہے اس کا قتل کرنا جائز ہے، اور جو شخص محصن ہوتے ہوئے زنا کرلے وہ بھی قتل کیا جائے گا۔ (یعنی اسے سنگساری کی سزا دی جائے گی) اور جو شخص کسی کو عمداً قتل کر دے جس کا شرعاً قتل کرنا حلال نہیں ہے اس کے قتل کرنے سے قصاص لازم ہوگا۔ مومن کو قتل کرنے کا بہت بڑا گناہ ہے اور اس پر بہت سخت وعید قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے لہٰذا کسی مومن سے یہ تصور ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے مومن بھائی کو قصداً قتل کردے ہاں خطا یعنی غلطی سے کوئی قتل ہوجائے تو یہ دوسری بات ہے۔ غلطی سے قتل ہوجانے کو قتل خطا سے تعبیر کیا جاتا ہے، قتل خطا کی دو صورتیں ہیں خطافی القصد اور خطافی الفعل، خطافی القصد یہ ہے کہ اس نے کسی چیز کو دیکھا اسے شکار سمجھ کر تیرمار دیا اور وہ شکار نہ تھا بلکہ کوئی آدمی تھا یا اس نے یہ سمجھا کہ سامنے کافر حربی کھڑا ہے اس کو مار دیا بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مسلمان تھا اور خطافی الفعل یہ ہے کہ کسی نشانہ پر تیر پھینکے اور وہ تیر کسی آدمی کو لگ جائے ان دونوں صورتوں میں کفارہ بھی واجب ہوتا ہے اور دیت بھی واجب ہوتی ہے، دیت خون بہا کو کہتے ہیں یعنی جان کے بدلہ جو مال دیا جائے وہ دیت ہے یہ لفظ اصل میں وَدْیٌ تھا۔ وَزنٌ اور وَعْدٌ عِدَۃٌکی طرح اس کا فاکلمہ یعنی واو حذف کردیا گیا اور آخر میں اس کے عوض تالگا دی گئی۔ ودی یدی لفیف مفروق ہے جس کا معنی بہنے کا ہے۔ چونکہ خون بہانے کا عوض دیا جاتا ہے اس لیے اسے دیت کہتے ہیں۔ شریعت مطہرہ کے قانون میں دیت اور قصاص جانوں کی حفاظت کے لیے مشروع کیے گئے ہیں افسوس ہے کہ حکومتوں کے ذمہ دار جو اسلام سے انتساب رکھتے ہیں وہ دیگر احکام شریعت کی طرح ان احکام کو بھی عمل میں نہیں لاتے لہٰذا جانیں بےقیمت ہو کر رہ گئی ہیں۔ بعض ممالک میں جہاں دیت کی ادائیگی کرانے کا اہتمام ہے وہاں بڑی حد تک جانوں کی حفاظت ہے۔ دیت اور کفارہ ادا کرنے کا حکم : آیت شریفہ میں یہ بتانے کے بعد کہ کسی مومن کے شایان شان نہیں ہے کہ کسی مومن کو قتل کرے، اولاً دیت قتل خطا کا عمومی حکم بیان فرمایا، چناچہ ارشاد ہے (وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَھْلِہٖٓ) یعنی جو شخص کسی مومن کو خطاً قتل کر دے تو اس پر یہ فرض ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا ایک باندی آزاد کرے اور ان کا مومن ہونا شرط ہے اور دیت بھی ادا کرے جو مقتول کے وارثوں کے سپرد کردی جائے پھر فرمایا اِلاَّ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاکہ اگر یہ لوگ (یعنی وارثین) اس قاتل پر دیت کو صدقہ کردیں یعنی معاف کردیں تو یہ دیت معاف ہوئے گی اگر سب معاف نہ کریں تو جو شخص معاف کر دے گا اس کا حصہ معاف ہوجائے گا۔ اس کے بعد فرمایا (فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ) یعنی اگر مقتول ایسی جماعت سے ہو جن سے تمہاری دشمنی ہے یعنی وہ حربی کافروں میں رہتا ہے خود تو وہ مومن ہے لیکن اس کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور ان لوگوں سے صلح بھی نہیں ہے تو بطور کفارہ ایک رقبہ یعنی مومن غلام یا باندی آزاد کرنا ہوگا۔ رہی دیت تو وہ اس لیے واجب نہ ہوگی کہ اس کے متعلقین کافر ہیں اور دیت میراث کے اصول پر تقسیم ہوتی ہے اور چونکہ کافر اور مومن کے درمیان میراث نہیں چلتی اس لیے دیت واجب نہ ہوگی، کسی کو بھی نہ دی جائے گی۔ غلام آزاد کرنا یا دو ماہ کے روزے : پھر فرمایا (وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیْۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ) یعنی مومن مقتول اگر کسی ایسی قوم سے ہو جن کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو تو اگرچہ وہ قوم کافر ہے لیکن یہ مقتول چونکہ مومن سے اس لیے اس کے قاتل پر دیت واجب ہوگی جو اس کے خاندان کی طرف سپرد کردی جائے گی بشرطیکہ اس کے خاندان میں اہل اسلام موجود ہوں اور اگر ان میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے تو دیت واجب نہ ہوگی، البتہ رقبہ مومنہ آزاد کرنا پھر بھی واجب ہوگا۔ (مزید تشریح آئندہ صفحہ پر ملا حظہ فرمائیں) ۔ واضح رہے کہ قتل مومن میں دیت کا اور تحریر رقبہ یعنی غلام آزاد کرنے کا جو حکم ہے یہ صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ مقتول ایسی قوم میں سے ہو جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو بلکہ دارالاسلام میں مسلمانوں کے درمیان ہوتے ہوئے کوئی مومن کسی مومن کو خطاً قتل کر دے تب بھی دیت اور تحریر رقبہ واجب ہے۔ (روح المعانی صفحہ 114: ج 5) اس کے بعد فرمایا (فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعِیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ) کہ جو رقبہ یعنی غلام باندی نہ پائے (مثلاً غلام باندی ملتے ہی نہ ہوں کمافی ھذا الزمان یا ملتے تو ہوں لیکن خریداری کی طاقت نہ ہو) تو دو مہینے کے روزے لگا تار رکھے ان روزوں میں رمضان المبارک کا مہینہ نہ ہو۔ رمضان کے علاوہ پورے دو مہینوں کے روزے ہوں یہ غلام آزاد کرنے کی جگہ روزے رکھنا بطور کفارہ ہے۔ دیت بہر حال واجب رہے گی۔ پھر فرمایا (وَ کَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا) کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اسے قاتل کا بھی علم ہے اور مقتول کا بھی اگر کسی نے قتل کردیا اور بندوں کو حال معلوم نہ ہوا قاضی تک بات نہ پہنچی تو یہ نہ سمجھے کہ دونوں جہاں میں میرا چھٹکارا ہوگیا جس کی شریعت ہے وہ دیکھنے والا اور جاننے والا ہے۔ وہ آخرت کے دن احکام کے خلاف ورزی کی سزا دیدے گا، نیز وہ حکیم بھی ہے اس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں، دیت اور تحریر رقبہ وغیرہ جو بھی کچھ احکام بندوں کے لیے مشروع فرمائے ہیں ان سب میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔ تنبیہ : (وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاق) میں چونکہ لفظ (وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ) مذکور نہیں ہے اس لیے بعض فقہاء نے اس کو ذمی اور معاہد کے قتل پر محمول کیا ہے۔ علامہ قرطبی اپنی کتاب احکام القرآن صفحہ 325: ج 3 میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور شعبی اور نخعی اور شافعی کا قول ہے اور طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، پھر بحث کے ختم پر بعض علماء کا قول نقل کیا یہ مضمون عرب کے ان مشرکوں کے بارے میں تھا جنہوں نے حضور اقدس ﷺ سے اس بات کا معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں گے یا ان کو جنگ کا اعلان کردیا جائے گا یہ معاہدہ ایک مخصوص میعاد کے لیے تھا اس زمانہ میں ان میں سے کوئی شخص مقتول ہوجاتا تو دیت اور کفارہ دونوں واجب ہوتے تھے پھر جب آیت کریمہ (بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) نازل ہوئی تو یہ معاہدہ بھی ختم اور اس کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے جو کچھ التزام کیا گیا تھا وہ بھی ختم اب یہ حکم باقی نہیں رہا۔ مسائل متعلقہ دیت، مسئلہ : قتل خطا میں ایک جان کی دیت سواونٹ ہیں جن میں سے بیس بنت مخاض اور بیس بنت لبون اور بیس ابن مخاض اور بیس حقے اور بیس جذعے ہوں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے اسی طرح مروی ہے۔ (اونٹوں کے یہ القاب ان کی عمروں کے اعتبار سے ہیں اہل عرب نے اونٹوں کے نام اس طرح رکھے تھے) ۔ مسئلہ : اگر اونٹوں کے علاوہ دوسرے مال سے دیت دی جائے تو ہزار دینار سونے کے اور دس ہزار درہم چاندی کے دئیے جائیں۔ مسئلہ : حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دیت صرف انہی چیزوں سے ادا کی جائے گی یعنی اونٹوں سے اور دینار سے اور درہم سے، اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ گایوں اور بکریوں اور کپڑوں سے بھی ادا کی جاسکتی ہے اگر گایوں سے دیت ادا کی جائے تو سو گائیں دی جائیں اور بکریوں سے دی جائے تو ہزار بکریاں دی جائیں اور کپڑوں سے ادا کی جائے تو دو سو جوڑے ادا کیے جائیں کیونکہ حضرت عمر ؓ نے اس طرح مقرر فرما دیا تھا۔ مسئلہ : عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ مسئلہ : مسلم اور ذمی کی دیت برابر ہے (ذمی وہ کافر لوگ ہیں جو مسلمانوں کی عملداری میں رہتے ہیں) ۔ مسئلہ : دیت میراث کے حکم میں ہے جو مقتول کے شرعی ورثاء میں حسب حصص شرعیہ مقررہ فی الا وارث تقسیم کی جائے گی۔ اگر سب وارث معاف کردیں تو سب معاف ہوجائے گی اور بعض ورثاء معاف کریں تو ان کے حصے کے بقدر معاف ہوجائے گی۔ مسئلہ : قتل خطاً کی دیت عاقلہ پر واجب ہوتی ہے، اور کفارہ (تحریر رقبہ یا صیام شھرین متتابعین) بہر حال قاتل ہی پر واجب ہوتا ہے۔ عاقلہ سے اہل نصرت مراد ہیں جن میں قاتل رہتا سہتا ہو اور جو آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوں اہل نصرت نہ ہوں تو پھر قاتل کا قبیلہ ہی عاقلہ ہوگا، اس اجمال کی تفسیر کتب فقہ میں مذکور ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ دیت صرف قاتل کے کنبے اور قبیلے پر ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتل تو صرف ایک شخص نے کیا ہے اس کی دیت اہل قرابت یا اہل نصرت پر کیوں پڑے ؟ اس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احادیث اور آثار سے ایسا ہی ثابت ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بےاحتیاطی قاتل سے ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل نصرت اور اہل قرابت پر بھروسہ کرتا ہے اور ان کی نصرت اور حمیت کے پیش نظر وہ اپنے اندر ایک قوت محسوس کرتا ہے جن لوگوں پر اسے اعتماد ہے ان لوگوں کو بھی دیت کی ادائیگی میں شریک کرلیا جائے تو وہ بھی اپنے قبیلے کے ہر فرد متعلقین کو جن سے نصرت اور حمیت کا تعلق ہے بہت زیادہ احتیاط کی تاکید کریں گے اور اس طرح سے قتل خطا کا وجود بہت کم ہوگا، دیت کی ادائیگی کے خوف سے وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برابر منع کرتے رہیں گے کہ دیکھو قتل کا کوئی واقعہ نہ ہوجائے ورنہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ مسئلہ : عاقلہ سے تین سال میں تھوڑی تھوڑی کر کے دیت وصول کی جائے گی۔ قاتل کا اپنا قبیلہ اس لائق نہ ہو کہ دیت ادا کرسکے اور اس کے قبیلے سے جو قریب ترین قبیلہ نسب کے اعتبار سے ملتا ہو اس کو بھی ادائیگی دیت میں شامل کرلیا جائے گا، خود قاتل بھی عاقلہ کا ایک فرد ہوگا اور اس سے بھی حصہ مقررہ وصول کیا جائے گا، تفصیلات فقہ میں مذکورہ ہیں۔ قتل شبہ عمد : مسئلہ : قتل خطا کے علاوہ ایک قسم قتل عمد ہے اور ایک قتل شبہ عمد ہے قتل عمد کا ذکر آئندہ آیت میں انشاء اللہ تعالیٰ آ رہا ہے اور قتل شبہ عمد وہ ہے جس میں قصداً مارنے کا ارادہ کیا ہو لیکن دھار والے ہتھیار سے یا ہتھیار جیسی چیز سے (جس سے تفریق اعضاء ہو) نہ مارا ہو۔ مثلاً کوڑوں سے یا لاٹھی سے مارا ہو قتل شبہ عمد میں بھی دیت ہے اور کفارہ ہے اس کی دیت بھی عاقلہ پر ہوگی۔ دینار اور درہم سے دیت ادا کی جائے تو وہ تو اسی قد رہے جتنی قتل خطا میں ہے۔ اور اگر اونٹوں کے ذریعہ ادا کی جائے تو اس میں کچھ فرق ہے اور وہ یہ کہ اونٹ تو سو ہی ہوں گے لیکن اونٹوں کی پانچ قسموں کی بجائے چار قسمیں کی جائیں گی یعنی پچیس بنت مخاص اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے دینے ہوں گے، یہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے جو حضرت ابن مسعود ؓ سے منقول اور مروی ہے۔ مسئلہ : کفارہ قتل میں آزاد کرنے کے لیے لفظ رقبہ وارد ہوا ہے یہ لفظ لونڈی اور غلام دونوں کو شامل ہے جسے بھی آزاد کر دے گا کفارہ ادا ہوجائے بشرطیکہ مومن ہو اور اعضاء صحیح سالم ہوں۔ مسئلہ : اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے روزے رکھنا لازم ہوگا۔ اگر مرض کی وجہ سے تسلسل ٹوٹ جائے تو دو بارہ روزے رکھنے ہوں گے۔ البتہ عورت کو اگر درمیان میں حیض آجائے تو اس کی وجہ سے تسلسل باطل نہ ہوگا، اور رمضان کے روزے کفارہ کے حساب میں نہیں لگ سکتے۔ (کماذ کر ناہ من قبل) قتل کی کچھ اور صورتیں : قتل خطا کے ساتھ فقہاء نے دو چیزیں اور لکھی ہیں ایک مَا اُجری مجری الخطا اور دوسری القتل بسبب پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص سوتے ہوئے کسی پر پلٹ پڑے جس سے وہ قتل ہوجائے، اس میں کفارہ اور دیت دونوں واجب ہوتے ہیں اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کی ملک میں کنواں کھود دے یا کوئی پتھر رکھ دے جو کسی کی جان جانے کا سبب بن جائے۔ اس صورت میں بھی عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے لیکن اس میں کفارہ نہیں ہے۔ مسئلہ : اگر کسی حاملہ عورت کے پیٹ میں مار دیا جس کی وجہ سے مرا ہوا بچہ گرگیا تو اس میں ایک غلام یا پانچ سو درہم واجب ہوں گے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اس کو غزہ کہتے ہیں، اور اگر زندہ بچہ گر کر مرگیا تو اس کی پوری دیت دینی ہوگی۔ اور اگر مردہ بچہ گرنے کے بعد ماں مرگئی تو ماں کی پوری دیت دینی ہوگی اور بچے کا غزہ دینا ہوگا اور اگر چوٹ لگنے سے ماں مرگئی پھر بچہ زندہ نکل کرمر گیا تو ماں کی اور بچے کی علیحدہ علیحدہ دو دیتیں دینی ہوں گی اور حمل ساقط ہونے کی وجہ سے جو کچھ واجب ہوگا وہ اس بچے کے وارثوں پر تقسیم ہوگا۔ مسئلہ : جو شخص جانور پر سوار ہو کر جا رہا ہو اس کے ذمہ لازم ہے کہ سلامت روی کے ساتھ چلے اگر اس کی سواری نے کس کو روند دیا یا ٹکر مار دی یا دانتوں سے کاٹ لیا تو ان سب صورتوں میں ضمان لازم آئے گا۔ مسئلہ : اگر دو گھوڑے سوار جا رہے تھے جو آپس میں ٹکرا کر مرگئے تو ہر ایک کی عاقلہ پر دوسرے کی دیت واجب ہوگی۔ فائدہ : قصاص اور دیت کا نظام درحقیقت جانوں کی حفاظت کے لیے ہے اللہ کا قانون جاری نہ کرنے کی وجہ سے پورے عالم میں قتل و خون کا بازار گرم ہے قوانین شرعیہ کو نافذ نہ کرنے والے ظالم ہیں جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا (وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ ) (اور جو لوگ اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو اللہ نے نازل فرمایا وہ لوگ ظالم ہیں) ۔ وزرا حکومت زعمائے سیاست میں جو لوگ احکام خداوندیہ کو ظالمانہ کہتے ہیں وہ کافر ہیں اگرچہ وہ مسلمان ہونے کے مدعی ہوں۔ قصاص اور قتل کا قانون خداوندی نافذ نہ ہونے کی وجہ سے قاتلین کسی بھی جان کے قتل کرنے میں باک محسوس نہیں کرتے وہ بڑی بےباکی کے ساتھ جس کو چاہتے ہیں قتل کردیتے ہیں، اگر کسی کو قتل کردیا تو اول تو بغیر رشوت کے مقدمہ درج نہیں ہوتا اور درج ہوتا ہے تو قاتل کو سزا سے بچانے یا ہلکی سزا دلانے کے لیے قاتل سے رشوت لے کر رپورٹ کے الفاظ ہلکے کر دئیے جاتے ہیں جو قانون کی گرفت میں نہیں آتے پھر جب مقدمہ چلتا ہے اور اگر سارے مرحلوں سے گزر کر حاکم نے کسی قاتل کو سزا دے ہی دی تو وہ سزا قید و بند کی صورت میں ہوتی ہے۔ مقتول کے وارثوں کو ذرا بھی دیت نہیں ملتی، ان سب چیزوں نے امن عام کو برباد کر رکھا ہے، قصداً وارادۃً قتل کرنے کی واردات ہوتی رہتی ہے اور چونکہ قصاص جاری نہیں کیا جاتا اس لیے قاتل بےفکر ہو کر گھومتے پھرتے ہیں۔ حاکم بہت سے بہت عمر قید کا فیصلہ دے دیتا ہے (بشرطیکہ حاکم تک معاملہ پہنچا ہو اور اس نے ہمت کر کے فیصلہ دے دیا ہو) پھر یہ سزا اقتدار اعلیٰ کو رحم کی درخواست دینے سے یا حکومت کے بدل جانے سے (اقتدار جدید کی خوشی میں) معاف کردی جاتی ہے مقتول کے ورثاء دیت اور قصاص سے محروم پھرتے ہیں حالانکہ اولیاء مقتول کا حق کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ جو لوگ قانون الٰہی کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے نافذ نہیں کرتے اس کی بجائے دوسرے قانون نافذ کر رکھے ہیں اور ان کو موجودہ دور کے لیے مناسب سمجھتے ہیں (العیاذ باللہ) ان سب کا جواب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے (وَ کَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا) فرما کر دے دیا اللہ جل شانہٗ نے اپنے علم اور حکمت کے مطابق قوانین عطا فرمائے ہیں ان کے خلاف لکھنا یا بولنا اللہ کے علم اور حکمت پر اعتراض ہے۔
Top