Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کر دے تو اس کی جزاء جہنم ہے اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور اس پر اللہ کی لعنت ہوگی اور اس کے لیے اللہ نے بڑا عذاب تیار فرمایا ہے۔
کسی مومن کو قصداً قتل کرنے کا گناہ عظیم قتل خطا کے احکام بتانے کے بعد اس آیت میں قصداً قتل کرنے والے کی اخروی سزا کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا اس کو غضب ہوگا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار فرمایا ہے۔ کسی مومن کا قتل درحقیقت بہت ہی بڑا گناہ ہے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پوری دنیا کا ختم ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان آدمی کے قتل کے مقابلے میں معمولی چیز ہے۔ (رواہ الترمذی و النسائی و وقفہ بعضہم و ہواصح ورواہ ابن ماجہ عن البراء بن عازب کمافی المشکوٰۃ صفحہ 300) حضرت ابو سعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمام آسمان و زمین والے کسی مومن کے خون میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اوندھے منہ کرکے دوزخ میں ڈال دے گا۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ صفحہ 300) حضرت ابو سعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ امید ہے اللہ ہر گناہ کو معاف فرما دے گا مگر جو شخص مشرک ہوتے ہوئے مرگیا اور جس نے کسی مومن کو قتل کردیا ان کی مغفرت نہیں ہے۔ (رواہ ابوداؤد و النسائی عن معاویہ کمافی المشکوٰۃ صفحہ 301) اتنی سخت وعیدیں ہوتے ہوئے دنیا میں قتل و خون کی گرم بازاری ہے اسلام کا نام لینے والے اور اپنے کو مسلمان سمجھنے والے آپس میں لسانی، قومی، قبائلی وطنی اور صوبائی عصبیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں قوم اور برادری اور ملک و وطن سب یہیں دھرے رہ جائیں گے۔ قتل مومن کا گناہ کبیرہ ساتھ لے کر قبر میں جانے والوں کو اپنی آخرت کا فکر نہیں دوزخ میں داخل ہونا اور اس میں سزا پانا، آگ میں جلنا معمولی سی بات سمجھ رکھا ہے۔ جاہلی عصبیتیں پھر ابھر آئی ہیں، دشمنوں کے ورغلانے اور بھڑکانے سے آپس میں کٹا چھنی ہے۔ دشمنوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور اپنا اتحاد پاش پاش کر رہے ہیں۔ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج حضور اقدس ﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے پر متحد ہوگئے تھے۔ پرانی لڑائیاں جو صدیوں سے جاری تھیں بند ہوگئی تھیں۔ اسلام نے سب کو متحد کردیا تھا ایک مرتبہ بعض یہودیوں کے ابھارنے سے پھر لڑائی کی فضا بن گئی تو آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اس کو رفع دفع کیا اور اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت شریفہ (وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا) نازل فرمائی جس کی تفسیر اور واقعہ کا تذکرہ اسی آیت کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ دشمن تو ہمیشہ مسلمانوں کو لڑانا ہی چاہتے ہیں ان کا اتحاد و اتفاق انہیں گوارا نہیں مسلمان ہیں کہ آپس میں قتال و قتل کر کے اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ کرتے ہیں اور ایک جماعت کے آدمی دوسری جماعت کے لوگوں کو محض اس وجہ سے قتل کرتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت کا آدمی نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے دسویں ذوالحجہ کو حجۃ الوداع کے موقعہ پر جو خطبہ دیا تھا اس میں فرمایا تھا لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض (میرے بعد کافر مت ہوجانا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن مارو) ۔ (رواہ البخاری صفحہ 1048: ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے دنیا ختم ہونے سے پہلے ایسا دن ضرور آئے گا کہ قاتل کو بھی پتہ نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو بھی پتہ نہ ہوگا کہ میں کیوں قتل ہوا کسی نے عرض کیا ایسا کیوں ہوگا فرمایا فتنہ کی وجہ سے ایسا ہوگا قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہوں گے۔ (رواہ مسلم) حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے آجائیں تو وہ دونوں دوزخ والوں میں سے ہیں ایک شخص نے عرض کیا کہ ان میں سے جو قتل کردے اس کا دوزخ میں جانا سمجھ میں آتا ہے جو قتل ہوگیا وہ دوزخ میں کیوں جائے گا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انہ قد اراد قتل صاحبہ کہ مقتول بھی تو یہی ارادہ کیے ہوئے تھا کہ میں اس شخص کو قتل کر دوں لہٰذا وہ اپنی نیت کی وجہ سے دوزخ میں گیا۔ نیت تو دونوں ہی کی ایک دوسرے کو قتل کرنے کی تھی یہ بات اور ہے کہ ایک کا داؤ لگ گیا۔ (رواہ البخاری صفحہ 1049: ج 2) فائدہ : جمہور اہل سنت کا یہی مذہب ہے کہ قاتل مومن عمداً کی بالآخر بخشش ہوجائے گی جیسے دوسرے گناہوں کا حکم ہے۔ البتہ حضرت ابن عباس ؓ کا مشہور قول یہ ہے کہ اس کی مغفرت نہ ہوگی اور ان سے اس کے خلاف بھی منقول ہے۔ قال سعید بن جبیر اختلف فیھا (ای فی الایۃ) اھل الکوفۃ فر حلت فیھا الی ابن عباس فسالتہ عنھا فقال نزلت ھذہ الایۃ و من یقتل مومنا فجزاء ہ جھنم خالدا فیھاھی آخر مانزل وما نسخھا شیء (رواہ البخاری صفحہ 260) قال البیضاوی قال ابن عباس ؓ عنھما لا تقبل توبۃ قاتل المومن عمدا ولعلہ اراد بہ التشدید اذ روی عنہ خلافہ والجمھور علی انہ مخصوص بمن لم یتب بقولہ تعالیٰ وانی لغفار لمن تاب ونحوہ او المراد بالخلود المکث الطویل فان الدلائل متظاھرۃ علی ان عصاۃ المسلمین لا یدوم عذابھم اوھو محمول علی المستحل (اھ بحذف) مسئلہ : جو شخص قصداً وارادۃً قتل کر دے اس میں اول تو بہت بڑا گناہ ہے جیسا کہ اوپر آیت میں گزرا اور قصاص بھی ہے جس کی کچھ تفصیل سورة بقرہ رکوع 22 میں گزر چکی ہے اور کچھ انشاء اللہ سورة مائدہ کے رکوع 7 کی تفسیر میں آئے گی۔ قصاص وارثوں کا حق ہے وہ چاہیں تو معاف کردیں اور چاہیں تو قصاص میں قتل کردیں کسی بھی بادشاہ یا صدر یا وزیر یا کسی بھی چھوٹے بڑے حاکم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ (کماذ کرنا من قبل) مسئلہ : جو شخص اپنے کسی مورث کو قتل کر دے (جس سے میراث پانے والا تھا) تو قاتل میراث سے محروم کردیا جائے گا (اس نے چاہا کہ اپنے مورث کو قتل کر کے جلدی میراث پالے۔ لہٰذا شریعت نے اسے میراث سے بالکل محروم کردیا) ۔ مسئلہ : شبہ عمد میں بھی میراث سے محروم ہوجاتا ہے۔
Top