Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 82
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَ اَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَفَلَمْ : پس کیا نہیں يَسِيْرُوْا : وہ چلے پھرے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَيَنْظُرُوْا : تو وہ دیکھتے كَيْفَ كَانَ : کیسا ہوا عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ : انجام ان لوگوں کا جو مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ : ان سے قبل كَانُوْٓا اَكْثَرَ : وہ زیادہ تھے مِنْهُمْ : ان سے وَاَشَدَّ : اور بہت زیادہ قُوَّةً وَّاٰثَارًا : قوت اور آثار فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَمَآ اَغْنٰى : سو نہ کام آیا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے (کرتے) تھے
کیا وہ لوگ زمین میں نہیں چلے پھرے سو وہ دیکھ لیتے کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے، وہ ان سے زیادہ تھے اور ان سے قوت میں بھی سخت تھے اور زمین میں بھی ان کی نشانیاں بہت ہیں سو ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی
گزشتہ قوموں کی بربادی کا تذکرہ (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ) (الیٰ اخر السورۃ) کیا ان لوگوں نے سفر نہیں کیا اور نافرمان پرانی امتوں کے مکان اور کھنڈر اور کنوئیں اور اینٹ پتھر نہیں دیکھے ؟ دیکھے ہیں اور بار بار دیکھے ہیں ان امتوں کا انجام بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ لوگ ان سے عدد میں بڑھ کر تھے اور طاقت میں بھی زیادہ تھے اور زمین میں ان کے نشانات بھی بہت ہیں انہوں نے مضبوط قلعے بنائے پتھروں کو تراش کر گھر بنائے لیکن رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے عذاب آیا تو سب چیزیں دھری رہ گئیں جو کچھ کماتے تھے وہ کچھ بھی کام نہ آیا۔ جب اللہ کے رسول کھلے ہوئے معجزات اور آیات واضحات لے کر آئے تو ان لوگوں نے رسولوں کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا اور اپنے پاس جو دنیاوی چیزوں کا علم تھا یا جہل کو علم سمجھ رکھا تھا اسی پر اتراتے رہے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف سے جو تکذیب پر عذاب آنے کی خبر دی گئی تھی اس کا مذاق اڑاتے تھے اس نے ان کو تباہ کردیا قرآن کے مخاطبین پر لازم ہے کہ ان لوگوں کے حالات اور ان لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ جب ان لوگوں پر عذاب آیا تو کہنے لگے کہ ہم اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے سوا ہم نے جن کی عبادت کی اور انہیں عبادت الٰہیہ میں شریک کیا آج ہم اس کے منکر ہوتے ہیں لیکن جب انہوں نے عذاب دیکھ لیا تو ایمان کی باتیں کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ایمان اس وقت نافع ہوتا ہے جب عذب آنے سے پہلے ایمان قبول کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی یہی عادت رہی کہ تکذیب کی وجہ سے جب بندوں پر عذاب آیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا مقبول نہ ہوا بہرحال ہلاک کردئیے گئے (وَخَسِرَ ھُنَالِکَ الکافرون) (آیت نمبر 85) (اور اس موقعہ پر کافر لوگ ہی خسارہ میں پڑگئے) ولا یستثنی من ذلک الا قوم یونس (علیہ السلام) کما جآء مصرحاً فی سورة یونس (علیہ السلام) پس مخاطبین قرآن پر لازم ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک پر اور اس کے آخری نبی پر اور اس کے دین پر ایمان لائیں تاکہ سابقہ امتوں کی طرح ہلاک نہ ہوجائیں۔ وھذا آخر تفسیر سورة الغافر، والحمد للّٰہ العزیز الغافر والصلوٰۃ علی النبی الطیب الطاھر، وَعَلٰی من اتبع سنۃ من کل ذاکر و شاکر
Top