Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پشتوں پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب تم اس پر بیٹھ جاؤ اور تم یوں کہو پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لیے مسخر فرما دیا اور ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہ تھے
﴿لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ﴾ (تاکہ تم اچھی طرح ان کی پشتوں پر بیٹھ جاؤ) جب خوب اچھی طرح جم کر جانوروں کی پشت پر بیٹھ جاتے ہیں تو اس کو ایڑھ مار کر چلاتے ہیں اور ان کی پشتوں پر بیٹھنے اور جمنے کے طریقے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دئیے ہیں، گھوڑے پر زین کستے ہیں اور اونٹ پر کجا وہ باندھتے ہیں اس کے اٹھے ہوئے کوہان کے باوجود اس کی کمر پر بیٹھتے ہیں اور اس پر سفر کرتے ہیں۔ وقولہٗ تعالیٰ : مَا تَرْكَبُوْنَ ما موصولة والعائد محذوف والضمیر المجرور فی ظھورہ عائد الی لفظ ما وجمع الظھور رعایة للمعنی۔ ” اللہ تعالیٰ کے ارشاد مَا تَرْكَبُوْنَ میں ماصولہ ہے اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف ہے اور ظھورہ کی ضمیر مجرور لفظ ما کی طرف لوٹتی ہے اور ظھور کو معنی کی رعایت کرتے ہوئے جمع لایا گیا ہے۔ “ سوار ہونے کی دعاء ﴿ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ ﴾ (پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب ان پر ٹھیک طرح سے بیٹھ جاؤ) یہ یاد کرنا زبان سے اور دل دونوں سے ہونا چاہیے زبان سے یاد کرنے کی دعا بھی بتادی فرمایا ﴿وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَۙ0013﴾ (اور تم یوں کہو، پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کردیا اور ہم اسے قابو میں کرنے والے نہ تھے) ﴿وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ 0014﴾ (اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف جانے والے ہیں) اس میں یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور ساتھ ہی اس بات کا بھی دھیان رکھیں اور بار بار مراقبہ کریں کہ اسی دنیا میں نہیں رہنا مرنا ہے، اور یہاں سے جانا ہے زندگی کا اور نعمتوں کا حساب بھی ہونا ہے۔ جب جانور پر سوار ہو تو اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے سنن ترمذی (کتاب الدعوات) میں ہے کہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں سواری کے لیے جانور لایا گیا، جب رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللہ کہا پھر جب اس کی پشت پر بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا پھر یہ آیت پڑھی ﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَۙ0013 وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۠0014﴾ (اللہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے قبضہ میں دے دیا اور اس کی قدرت کے بغیر ہم اسے قبضہ میں کرنے والے نہ تھے اور بلاشبہ ہم کو اپنے رب کی طرف جانا ہے) اس کے بعد تین بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور تین بار اللّٰہُ اَكبَر کہا پھر یہ دعا پڑھی سُبْحَانَكَ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الآّ اَنْتَ (اے اللہ تو پاک ہے بیشک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے کیونکہ گناہوں کو صرف تو ہی بخشتا ہے) اس کے بعد آپ ہنسے عرض کیا گیا امیر المومنین آپ کیوں ہنسے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہی کیا جیسا میں نے کیا آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ کس بات سے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا رب تعالیٰ شانہٗ کو اس بات سے خوشی ہوتی ہے جب بندہ رب اغفرلی کہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندہ کو معلوم ہے کہ میرے علاوہ گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا۔ (وھو فی المشکوٰۃ ص 214) سَخَّرَ لَنَا کی تشریح سواری کی جو دعا قرآن و حدیث میں بتائی اس میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ اے انسانو ! اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے جو فائدہ اٹھاتے ہو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جانور پیدا فرمائے۔ پھر جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، یہ مستقل نعمت ہے ان پر سواری کرو، سامان لادو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاؤ، اگر اللہ تعالیٰ ان کو مسخر نہ فرماتا تو ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے (جانور بدک جاتا ہے قابو سے باہر ہوجاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسخیر کا پتہ چلتا ہے۔ )
Top