Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 20
وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ١ؕ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ١ۗ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَؕ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ : اگر چاہتا رحمن مَا عَبَدْنٰهُمْ : نہ ہم عبادت کرتے ان کی مَا لَهُمْ : نہیں ان کے لیے بِذٰلِكَ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ : مگر اندازے لگا رہے ہیں
اور ان لوگوں نے کہا کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کرتے، انہیں اس بات کی کچھ بھی تحقیق نہیں وہ محض اٹکل سے بات کرتے ہیں،
مشرکین کی ایک جاہلانہ بات کی تردید، آباو اجداد کو پیشوا بنانے کی حماقت اور ضلالت جب مشرکین کو متنبہ کیا جاتا اور بتایا جاتا تھا کہ تم جو شرک میں پڑے ہوئے ہو یہ گمراہی ہے اور تمہارا خالق اور مالک جل مجدہٗ اس سے راضی نہیں ہے تو کٹ حجتی کے طور پر یوں کہتے تھے کہ اگر ہمارے اس عمل سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہے تو ہمیں اپنے علاوہ دوسروں کی عبادت کیوں کرنے دیتا ہے ان لوگوں کے نزدیک بت پرستی کا عمل صحیح ہونے کی یہ ایک بڑی دلیل تھی اللہ جل شانہٗ نے فرمایا ﴿مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ 1ۗ﴾ (ان کو اس بات کی کچھ تحقیق نہیں) ﴿ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَؕ0020﴾ (یہ لوگ صرف اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں) مشرکین کی یہ بات سورة انعام کی آیت ﴿ سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآء اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا﴾ (الآیۃ) اور سورة نحل کی آیت ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآء اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ﴾ (الآیۃ) میں بھی گزر چکی ہے ان لوگوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا جب اس نے ہمیں غیر اللہ کی عبادت کا موقع دیا یعنی ہمیں جبراً اس عمل سے نہیں روکا تو معلوم ہوگیا کہ وہ ہمارے عمل سے راضی ہے یہ ان لوگوں کی جاہلانہ اور احمقانہ دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو ابتلاء اور آزمائش کے لیے پیدا فرمایا ہے اور آزمائش جب ہی ہوسکتی ہے جب حق اور ناحق بیان کردیا جائے اور اچھے برے اعمال بتا دئیے جائیں اور کرنے نہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے اگر جبراً کوئی کام کروالیا جائے تو اس میں امتحان نہیں ہوتا لہٰذا ان لوگوں کا یہ کہنا کفر و شرک کے اعمال پر ہم کو قدرت اور اختیار دے دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے اس عمل سے اللہ تعالیٰ راضی ہے یہ ان لوگوں کی جہالت کی بات ہے کیونکہ امتحان کے لیے قدرت دے دینا راضی ہونے کی دلیل نہیں یہ لوگ اپنے کفر و شرک کو جائز کرنے کے لیے اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں ﴿اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ﴾ (کیا ہم نے انہیں اس قرآن سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جس سے وہ اس پر استدلال کرتے ہیں) یعنی مشرکین عرب کے پاس ہم نے قرآن مجید سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں کی اگر اس سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل کی جاتی اور اس میں شرک کی اجازت ہوتی تو اس کی دلیل میں پیش کرتے، ان کے پاس باپ دادوں کی تقلید کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جب انہیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ تم باطل پر ہو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہے ہم انہیں کے پیچھے چل رہے ہیں اور اسی کو ہدایت سمجھ رہے ہیں۔ دلائل صحیحہ قاہرہ کو نہ ماننا اور باپ دادوں کا اتباع کرنا دنیا میں پرانی رسم ہے اسی کو فرمایا ﴿ وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ ﴾ اور جس طرح یہ لوگ جواب دیتے ہیں یہی حال ان لوگوں کا تھا جن کی طرف ہم نے آپ سے پہلے ڈرانے والے بھیجے تھے ان کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر پایا ہے اور انہیں کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں وہ ہمارے امام تھے، اور ہم ان کے مقتدی ہیں۔ لوگوں کی یہ جاہلانہ بات سورة بقرہ اور سورة مائدہ اور سورة لقمان میں بھی ذکر فرمائی سورة بقرہ میں ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ﴿اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْـًٔا وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ 00170﴾ (کیا اپنے باپ دادوں کا اتباع کریں گے اگرچہ وہ سمجھ نہ رکھتے ہوں اور ہدایت پر نہ ہوں) سورة لقمان میں فرمایا ﴿ اَوَ لَوْ كَان الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَاب السَّعِيْرِ 0021﴾ (کیا اپنے باپ دادوں کا اتباع کریں گے اگرچہ شیطان انہیں دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو) خلاصہ یہ کہ باپ دادوں کی تقلید کوئی چیز نہیں، ہاں اگر وہ ہدایت پر ہوں تو ان کا اتباع کیا جائے گمراہی میں کسی کا بھی اتباع کرنا گمراہی ہے، اتباع اس کا کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو۔ كما قال تعالیٰ ﴿ اتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ﴾
Top