Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ اس کے ساتھ رہتا ہے
جو رحمٰن کے ذکر سے غافل ہو اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے، قیامت کے دن اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا کہ دوسروں کو بھی تو عذاب ہو رہا ہے، آپ ﷺ کی زندگی میں بھی ان پر عذاب آسکتا ہے لفظ ﴿یَعْشُ﴾ عَشیٰ یَعْشَوْ سے ﴿یَدْعُوْ﴾ کے وزن پر مضارع کا صیغہ ہے من شرطیہ داخل ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے جس کی وجہ سے واؤ حذف ہوگیا اس کا لغوی معنی یہ ہے کہ آنکھوں میں کوئی بیماری نہ ہو تب بھی نظر نہ آئے اور بعض حضرات نے اس کا یہ معنی بتایا ہے کہ نظر کمزور ہوجائے جس سے اچھی طرح نظر نہ آئے آیت کا مطلب یہ ہے بہت سے لوگوں کے پاس حق آیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت آئی یعنی انہوں نے قرآن کو سنا اور سمجھا لیکن قصداً و ارادۃً اس کی طرف سے اندھے بن گئے جو لوگ اس طریقے کو اختیار کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ایک شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اب یہی شیطان ان کا ساتھی بنا رہتا ہے اور ان کو حق قبول نہیں کرنے دیتا اور حق پر نہیں آنے دیتا یہ شیاطین جو اس قسم کے لوگوں کے ساتھی بن جاتے ہیں ان گمراہی اختیار کرنے والے لوگوں کو راہ حق سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ جن کے ساتھی شیاطین بن جاتے ہیں راہ حق سے ہٹ جانے اور گمراہی میں پڑجانے کے باوجود یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں، یہ شیطان اس قرین کے علاوہ ہے جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک قرین فرشتہ اور ایک قرین شیطان مقرر ہے۔ (رواہ مسلم) ان گمراہوں کی دنیا میں تو شیاطین سے دوستی ہے لیکن جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو گمراہ ہونے والا آدمی اپنے ساتھی یعنی شیطان سے کہے گا کہ تو نے میرا ناس کھویا کاش دنیا میں میرے اور تیرے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مغرب اور مشرق کے درمیان ہے تو میرا برا ساتھی تھا تو نے مجھے گمراہ کیا اور کفر و شرک اور برے اعمال کو اچھا کرکے بتایا۔ كما فی السورۃ حم السجدہ ﴿وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ ﴾ (اور ہم نے ان کے لیے کچھ ساتھ رہنے والے مقرر کر رکھے تھے سو انہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نظر میں اچھے بنا کر دکھا رکھے تھے۔ ) دنیا میں تو گمراہوں کا دوستانہ تھا شیاطین بھی کافر تھے اور جن انسانوں کو بہکاتے تھے وہ بھی ان کے بہکانے کی وجہ سے کفر پر جمے رہتے تھے پھر جب قیامت کے دن موجود ہوں گے تو سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا وہاں ایک دوسرے کو عذاب میں دیکھیں گے لیکن اس بات سے کسی کو کچھ نفع نہ ہوگا کہ سب دوزخ میں ہیں اور سب عذاب میں ہیں یعنی جس طرح دنیا میں ایک دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر تسلی ہوجاتی ہے کہ ہم تنہا مصیبت میں نہیں ہیں، دوسرے لوگ بھی اس مصیبت میں مبتلا ہیں جو ہم پر آئی ہے وہاں اس بات سے کسی کو کچھ نفع نہ ہوگا کہ سب عذاب میں شریک ہیں کیونکہ وہاں کا عذاب بہت سخت ہے۔ دنیا میں جو بہت سے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے تو حق کو جانتے اور پہچانتے ہوئے اسلام قبول نہیں کرتے اور نفس و شیطان ان کو یہ سمجھا دیتا ہے کہ اور بھی تو کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو مسلمان نہیں ہیں جو ان کا حال ہوگا وہی ہمارا ہوجائے گا ایسے لوگوں کو بتادیا کہ عذاب میں پڑنے والوں کے ساتھ عذاب میں جانا یہ کوئی سمجھداری نہیں ہے جب سب عذاب میں جائیں گے تو یہ دیکھ کر کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ دوسرے لوگ بھی عذاب میں ہیں۔ بہت سے وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ان کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فرائض انجام دو ، حرام سے بچو اور گناہوں کو چھوڑو تو کہہ دیتے ہیں کہ اور کون شریعت پر چل رہا ہے جو ہم چلیں، یہ جاہلانہ جواب ہے یہاں تو گنہگاروں کی جماعت میں شریک ہونا نفس کو اچھا لگ رہا ہے لیکن روز قیامت جب گنہگاروں کی صف میں کھڑے ہوں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اس وقت اس بات سے کسی کو کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ ہم بھی عذاب میں ہیں تو کیا ہوا اور ہزاروں آدمی بھی تو عذاب میں ہیں اس بات کا خیال کرنے سے کسی کا عذاب ہلکا نہیں ہوجائے گا۔
Top