Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم کے بڑے لوگوں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا لہٰذا موسیٰ نے کہا کہ بیشک میں رب العلمین کا رسول ہوں،
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم فرعون کے پاس پہنچنا اور ان لوگوں کا معجزات دیکھ کر تکذیب اور تضحیک کرنا، فرعون کا اپنے ملک پر فخر کرنا اور بالآخر اپنی قوم کے ساتھ غرق ہونا ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت و رسالت اور فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں اور چودھریوں کی تکذیب پھر ہلاکت اور تعذیب کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے اشراف قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں یعنی معجزات لے کر پہنچے تو ان لوگوں نے ان کا مذاق بنایا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ اژدھا بن گئی تو فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا کہ اجی یہ کیا معجزہ ہے یہ تو جادو کا کرشمہ ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے جادو گر بلائے ان سے مقابلہ کرایا جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں جو حاضرین کو دیکھنے میں دوڑتے ہوئے سانپ معلوم ہو رہی تھیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ان کے بنائے ہوئے دھندے کو چٹ کرنے لگا اس پر جادوگر ہار مان گئے جس کا واقعہ سورة الاعراف، سورة طٰہٰ اور سورة الشعراء میں مذکور ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دوسرا معجزہ ید بیضا تھا اس کا مقابلہ کرنے کی تو ہمت ہی نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی تھی، کیونکہ وہ امر غیر اختیار تھا ان کے علاوہ اور بھی معجزات تھے جو فرعونیوں کے لیے بھیجے گئے تھے، جن کا ذکر سورة اعراف میں یوں بیان فرمایا ہے ﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ﴾ یعنی ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیج دیا) (توضیح و تشریح کے لیے آیت بالا کی تفسیر ملاحظہ کرلی جائے) یہ چیزیں ان پر عذاب کے طور پر تھیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعدد معجزات تھے جب کوئی نشانی ظاہر ہوتی تھی تو وہ اپنی ساتھ والی دوسری نشانی سے بڑھ چڑھ کر ہوتی تھی عذاب آتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم تو اسے جادو ہی سمجھ رہے ہیں تم کہتے ہو یہ میرے رب کی طرف سے ہے جو مجھے بطور معجزہ عطاء کیا ہے اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میرا رب تمہارے اس عذاب کو ہٹا دے گا ہماری سمجھ میں یہ بات آتی تو نہیں ہے ہم تو تمہیں جادوگر ہی سمجھ رہے ہیں لیکن اگر تمہارے رب نے ہمارا عذاب ہٹا دیا تو ہم ضرور راہ پر آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہٹا دیا جاتا تھا تو اپنا عہد توڑ دیتے تھے اور کافر کے کافر ہی رہتے تھے فرعون کو فکر لگی ہوئی تھی کہ یہ شخص بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری قوم کے لوگ اس بات کو قبول کرلیں اور میری حکومت اور سلطنت جاتی رہے اور یہی بڑا بن جائے لہٰذا اس نے اپنی قوم میں ایک منادی کرادی اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو میں مصرکا بادشاہ ہوں میرے نیچے نہریں بہتی ہیں میں اس شخص سے بہتر ہوں جو نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے یہ میرے مقابلے میں ذلت والا ہے اس کی مالی حیثیت بھی نہیں اور یہ اور اس کا بھائی اس قوم میں سے ہے جو ہمارے خدمت گزار ہیں فرمانبردار ہیں ﴿فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ0047﴾ یہ اول تو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے کم ہے اس کی کچھ حیثیت نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ اچھی طرح بیان بھی نہیں کرسکتا (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں جو لکنت تھی اس کی طرف اشارہ کیا) اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر یہ شخص نبی ہے تو بہت بڑا مالدار ہونا چاہیے اگر نبی ہوتا تو اس پر سونے کے کنگن ڈالے جاتے اور چوتھی بات یہ ہے کہ اس کی تائید کے لیے فرشتے آنے چاہئیں تھے جو لگا تار صفیں بنا کر آجاتے اس کی تائید اور مدد کرتے۔ ہر قوم کے چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی طرف دیکھا کرتے ہیں بڑے لوگ فرعون کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے ان کی دیکھا دیکھی قوم کے دوسرے لوگ بھی مغلوب ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے فرعون کی اطاعت کا دم بھرتے رہے اس کی قوم کے چھوٹے بڑے لوگ فاسق اور نافرمان تھے شرارت سے بھرے ہوئے تھے انہوں نے کفر پر رہنے کا فیصلہ کیا سمجھانے سے باز نہ آئے، موسیٰ (علیہ السلام) کی اور معجزات کی بےادبی کی اور معجزات کو جادو بتایا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کا غضب نازل کرنے والی تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے بدلہ لے لیا اور ان سب کو ڈبو دیا غرق کرنے تک کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ﴿ فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا﴾ کہ ہم نے انہیں بعد میں آنے والوں کے لیے سلف یعنی پہلے گزر جانے والا نمونہ بنا دیا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں پہلے آئے سرکشی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے ڈبو دئیے گئے بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا واقعہ عبرت اور نصیحت ہے قصص الاولین مواعظا للاخرین، پہلے لوگوں کے واقعات جنہیں سلف کہا جاتا ہے بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت ہوتے ہیں اور اس بات کا نمونہ بن جاتے ہیں کہ جو قوم ان کی طرح اعمال کرے گی ان کے ساتھ پرانے لوگوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ قولہ تعالیٰ ﴿اَمْ اَنَا خَيْرٌ ﴾ قال ابو عبیدة ام بمعنی بل لیس بحرف عطفٍ ، وقال الفراء ان شئت جعلتھا من الاستفھام وان شئت جعلتھا من النسق علی قولہ ﴿اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ ﴾ وقیلھی زائدة وقولہ مقترنین معناہ قال ابن عباس ؓ یعاونونہ علی من خالفہ وقال قتادة متتابعین قال مجاھد یمشون معہ والمعنی ھل ضم الیہ الملائكة التی یزعم انھا عند ربہ حتی یتکثربھم یصرفھم علی امرہ ونھیہ فیکون ذلک اھیب فی القلوب۔ وقولہ تعالیٰ ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ ﴾ قال ابن الاعرابی المعنی فاستجھل قومہ لنخفة احلامھم وقلة عقولھم، وقیل استخف قومہ قھرھم حتی اتبعوہ یقال استخفہ خلاف استثقلہ واستخف بہ اھانہ۔ قولہ تعالیٰ ﴿ فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا ﴾ عن ابن عباس ای غاظونا واغضبونا والغضب من اللّٰہ اما ارادة العقوبة فیکون من صفات الذت اما عین العقوبة فیکون من صفات الفعل۔ (من القرطبی ص 101: ج 16) ارشاد الٰہی ﴿اَمْ اَنَا خَيْرٌ ﴾ ابو عبیدہ ؓ نے کہا ام، بل کے معنی میں ہے، حرف عطف نہیں ہے، فراء کہتے ہیں اگر چاہو تو استفہام کے لیے سمجھو چاہو تو ﴿اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ ﴾پر عطف مان لو، بعض نے کہا زائد ہے۔ ﴿مُقْتَرِنِيْنَ ﴾ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے وہ مخالفوں کے خلاف اس کی مدد کرتے، قتادہ ؓ کہتے ہیں اس کا معنی ہے متتابِعِیْنَ یعنی اس کی پیروی کرتے، مجاہد کہتے ہیں اس کے ساتھ چلتے مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ فرشتے ہوتے جو اس بات کی دلیل ہوتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان فرشتوں سے کثرت حاصل کرتا اور امر ونہی کا ان پر تصرف کرتا تو اس سے دلوں میں رعب پڑتا۔
Top