بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو تم اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے سبقت مت کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے،
رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور خدمت عالیٰ میں حاضری کے احکام و آداب کی تلقین ! رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات جن گھروں میں رہتی تھیں انہیں حجرات سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ یہ گھر چھوٹے چھوٹے تھے اور پختہ عمارتیں بھی نہ تھیں کھجوروں کی ٹہنیوں سے بنا دی گئی تھیں چونکہ اس سورت کے پہلے رکوع میں ان حجروں کا ذکر ہے اس لیے یہ سورت سورة الحجرات کے نام سے موسوم ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے توقیر اور احترام کی تلقین فرمائی اور اس سلسلے میں چند آداب ارشاد فرمائے ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ اے ایمان والو تم اللہ اور رسول سے سبقت مت کرو یہ ﴿ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ کا ترجمہ ہے ان الفاظ میں بڑی جامعیت ہے حضرات مفسرین کرام نے اس کے متعدد معنی لکھے ہیں حضرت مجاہد نے فرمایا کہ تم پہلے سے کوئی بات اپنی طرف سے نہ کہہ دو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرو وہ اپنے رسول کی زبانی جو فیصلہ فرما دے اس کے مطابق عمل کرو حضرت سفیان ثوری ؓ نے بھی تقریباً یہی مطلب بتایا ہے، حضرت قتادہ ؓ نے فرمایا یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو یوں کہا کرتے تھے کہ اس بارے میں کچھ حکم نازل ہوجاتا اور فلاں مسئلہ میں کوئی قانون نازل ہوجاتا تو اچھا تھا اللہ تعالیٰ کو ان کی بات پسند نہ آئی اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول سے سبقت نہ کرو۔ (معالم التنزیل ص 209 ج 4، ابن کثیر ص 205 ج 4) ساتھ ہی ﴿ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ 1ؕ ﴾ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈرو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ001﴾ بیشک اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ حضرت امام بخاری ؓ نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے بواسطہ عبد اللہ بن الزبیر ؓ نقل کیا ہے کہ بنی تمیم کا ایک قافلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور انہوں نے عرض کیا کہ کسی شخص کو ہمارا امیر بنا دیجیے (ابھی تک آنحضرت ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا تھا کہ) حضرت ابوبکر ؓ نے قعقاع بن معبد کو امیر بنانے کا مشورہ دیا اور حضرت عمر ؓ نے اقرع بن حابس کے امیر بنانے کی رائے پیش کی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا تمہارا اس کے علاوہ کچھ مقصد نہیں ہے کہ میری مخالفت کرو، حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی مخالفت کے طور پر اپنی رائے نہیں پیش کی، اس پر جھگڑا ہونے لگے جس سے دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، لہٰذا آیت کریمہ ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا ﴾ (آخر تک) نازل ہوگئی۔
Top