Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 3
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازوں کو پست کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے، ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے،
اَمْتَحَنَ لفظ امْتحان سے ماضی کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ ” جانچ کرنا “ کیا گیا ہے۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں : اِمْتَحَنَ اَخْلَصَ کے معنی میں ہے جس طرح سونے کو پگھلا کر خالص کردیا جاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قلوب کو تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ان کے قلوب میں تقویٰ ہی تقویٰ ہے۔ حضرات صحابہ ؓ کے آداب و احترام کو دیکھو اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کو اور مدح اور توصیف کو دیکھو اور شیعوں کے بغض اور دشمنی کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ تین چار صحابہ کے علاوہ سب کافر تھے۔ (العیاذ باللہ) فائدہ : حضرات علماء کرام نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف کے سامنے بھی آواز بلند کرنا مکروہ ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں ایسا کرنا مکروہ تھا کیونکہ آپ کا احترام اب بھی واجب ہے اور آپ کو بزرخی حیات حاصل ہے۔ جب خدمت عالی میں سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ہو تو دھیمی آواز میں سلام پیش کرے ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ ﴾ (الآیۃ) اس آیت کے سبب نزول میں صاحب معالم التنزیل نے متعدد قصے لکھے ہیں جو حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت زید بن الارقم ؓ سے مروی ہیں… حضرت زید بن ارقم ؓ کا بیان ہے کہ عرب کے کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آؤ آج اس شخص کے پاس چلیں جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ واقعی نبی ہیں تو ہمیں سب لوگوں سے آگے بڑھ کر ان پر ایمان لاکر سعادت مند ہونا چاہیے اگر وہ نبی نہیں ہے بلکہ انہیں بادشاہت ملنے والی ہے تو ہمیں ان کے زیر سایہ زندگی گزارنی چاہیے (بہرحال ان سے تعلق قائم کرنے میں فائدہ ہے) اس کے بعد حاضر ہوئے تو یا محمد یا محمد کہہ کر آوازیں دینے لگے، اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے۔ کہ قبیلہ بنی عنبر کے آدمی دوپہر کے وقت آئے تھے انہوں نے پکارا : یا محمد اخرج الینا (اے محمد ﷺ ہماری طرف نکلیے) دوپہر کا وقت تھا آپ آرام فرما رہے تھے ان لوگوں کی چیخ پکار سے آپ کی آنکھ کھل گئی اور حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ یہ لوگ قبیلہ بنو تمیم کے تھے جنہوں نے دروازے پر کھڑے ہوکر آپ کو باہر آنے کے لیے پکارا اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ 004﴾ (بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ہیں) ﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ 1ؕ﴾ اور اگر وہ لوگ صبر کرلیتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ﴿ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ005﴾ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے جس کسی سے جو بھی کوئی خطا سرزد ہوگئی ہو توبہ کرکے معاف کرالے۔
Top