Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو ایسا نہ ہو کہ تم نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچا دو پھر اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔
کوئی فاسق خبر دے تو اچھی طرح تحقیق کرلو ایسا نہ ہو کہ نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچا دو معالم التنزیل 212 ج 4 میں لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی واقعہ یوں پیش آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قبیلہ بنی المصطلق کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا جب ان لوگوں کو پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک شخص ہمارے قبیلہ کی زکوٰۃ وصول کرنے کے پہنچ رہا ہے تو لوگوں نے آبادی سے باہر آکر اکرام کے طور پر ان کا استقبال کیا چونکہ زمانہ جاہلیت میں ولید بن عقبہ اور قبیلہ مذکورہ کے درمیان عداوت تھی اس لیے شیطان کو ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالنے کا موقع مل گیا کہ لوگ تمہیں قتل کرنے کے لیے آ رہے ہیں انہوں نے شیطانی وسوسہ کو حقیقت پر محمول کرلیا اور راستہ ہی سے واپس ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کردیا کہ ان لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور مجھے قتل کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگواری ہوئی آپ نے ان سے جہاد کرنے کا ارادہ فرما لیا جب آپ کے ارادہ کا ان لوگوں کو علم ہوا تو خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ آپ کا قاصد پہنچا ہے ہم بطور استقبال اکرام کے لیے باہر نکلے تھے ہمارا ارادہ تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس کے موافق زکوٰۃ کے اموال آپ کے قاصد کے سپرد کردیں لیکن آپ کے قاصد نے واپس ہونا مناسب جانا ہمیں اندیشہ ہوا کہ آپ نے ناراض ہوکر خط لکھ کر انہیں واپس بلا لیا ہو ہم اللہ کے غصہ اور اس کے رسول ﷺ کے غصہ سے پناہ مانگتے ہیں آپ نے ان لوگوں کی بات کا بھروسہ نہ کیا اور حضرت خالد بن ولید ؓ کو خفیہ طریقہ پر بھیج دیا اور فرمایا کہ جاؤ اگر وہ لوگ ایمان پر باقی ہیں تو ان کے اموال کی زکوٰۃ لے لینا اور اگر دوسری کوئی صورت ہے تو ان کے ساتھ وہی معاملہ کرنا جو کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ ان کے پاس پہنچے تو انہیں فرمانبردار پایا لہٰذا ان سے اموال زکوٰۃ وصول کرلیے اور واپس آکر رسول اللہ ﷺ کو صورتحال سے باخبر کردیا، اس پر آیت کریمہ ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ ﴾ (الآیۃ) نازل ہوئی جس میں ایمان والوں کو یہ بتایا کہ ہر بات بھروسہ کرنے کی نہیں ہوتی اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی بات سن کر کوئی اقدام نہ کریں بلکہ پہلے خوب اچھی طرح تحقیق کرلیں اور چھان بین کرنے کے بعد کوئی قدم اٹھائیں ایسا نہ ہو کہ صرف خبر سن کر تحقیق کیے بغیر کسی قوم پر حملہ کر بیٹھیں اور پھر بعد میں ان کے بےقصور ہونے کا پتہ چلے تو ندامت اٹھانی پڑے اور بےجا اقدام کرنے کا نتیجہ بھگتنا پڑے۔ واقعہ تو ایک جزئی تھا لیکن قرآن حکیم میں ایمان والوں کو ہمیشہ کے لیے نصیحت فرما دی اور متنبہ فرما دیا کہ ہر خبر سچی نہیں ہوتی خبر کی تحقیق ضروری ہے اور تحقیق کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جاسکتا ہے آیت کے عموم نے بتادیا کہ یہ ہدایت امور دنیا اور امور آخرت سب سے متعلق ہے اسی لیے احادیث شریف کی روایات میں سچے اور متقی آدمی کی روایت قبول کی جاتی ہے جس راوی کا حال معلوم نہ ہو اسے مستور الحال کہتے ہیں اور اس کی روایت قبول کرنے میں توقف کرتے ہیں حضرت امام مسلم ؓ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس آیت کو ذکر کیا ہے اور اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ فاسق کی خبر ساقط ہے مقبول نہیں ہے۔
Top