Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
آپ فرما دیجئے کہ خبیث اور طیب برابر نہیں ہیں اگرچہ اے مخاطب ! تجھے خبیث کی کثرت بھلی معلوم ہوتی ہو۔ سو اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔
خبیث اور طیب برابر نہیں ہیں لباب النقول ص 98 میں اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے شراب کی حرمت بیان فرمائی تو ایک دیہات کا رہنے والا آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ میں شراب کی تجارت کرتا تھا اس کے ذریعہ میں نے مال حاصل کیا اگر یہ مال اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کروں تو کیا یہ مال مجھے نفع دے گا ؟ نبی اکرم ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لا یقبل الا الطیب ( کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ مگر پاکیزہ مال کو) اس پر اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ نے کی تصدیق فرماتے ہوئے آیت (قُلْ لاَ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ ) نازل فرمائی۔ اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت سے جو مال پہلے کمایا ہوا تھا وہ تو حلال ہونا چاہئے اس کو خبیث کیوں فرمایا ؟ بصورت صحت حدیث اس اشکال کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ چونکہ شراب کی حرمت نئی نئی نازل ہوئی تھی اس لئے کلی طور پر اس کے منافع سابقہ اور لاحقہ سب سے منع فرما دیا۔ یہ تشدید اس لئے کی گئی کہ شراب کے منافع سے بالکل ہی دست بردار ہوجائیں۔ اور دلوں میں اس سے کسی قسم کا لگاؤنہ رہے آیت کا سبب نزول جو کچھ بھی ہو بہر حال اس میں ایک اصولی بات بتاد ی اور وہ یہ خبیث اور طیب برابر نہیں۔ خبیث بری چیز کو اور طیب اچھی کو کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے خبیث کا ترجمہ ناپاک اور طیب کا ترجمہ پاک کیا ہے۔ آیت کا مفہوم عام ہے اچھے برے اعمال اور اچھے برے اموال اور اچھے برے افراد سب کو شامل ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ خبیث سے حرام مال اور طیب سے حلال مراد ہے بعض حضرات نے خبیث سے کافر اور طیب سے مومن مراد لیا۔ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں الفاظ قرآنیہ کا عموم ان سب کو شامل ہے۔ کسب مال میں بھی حلال کا دھیان رکھا جائے۔ اور جب اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے لگیں تو حلال اور عمدہ مال خرچ کریں اور مومن کو کافر پر ترجیح دیں البتہ ظلم کسی پر نہ کریں۔ حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی بندہ حرام کمائے گا پھر اس میں سے صدقہ کریگا تو قبول نہ کیا جائے گا اور اس میں سے خرچ کریگا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا تو یہ اس کے لئے دوزخ میں جان کا توشہ ہوگا۔ بیشک اللہ برائی کو برائی سے نہیں ہٹاتا (یعنی مال خبیث کما کر اس میں سے صدقہ کردے تو اس صدقہ سے حرام مال پاک نہ ہوجائیگا اور حرام کمانے کا گناہ معاف نہ ہوگا) (مشکوۃ المصابیح ص 242) وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَفْرَۃُ الْخَبِیْثِمیں یہ ارشاد فرمادیا کہ کسی چیز کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اچھی بھی ہو۔ دنیا میں کافر زیادہ ہیں اس کثرت کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک اچھے نہیں ہوگئے جو لوگ اسلام کے دعویدار ہیں ان میں بھی اکثر وہ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگ ان کی اکثریت دیکھ کر گناہوں کی راہ اختیار کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ گناہ چھوڑو تو کہہ دیتے ہیں کہ لاکھوں آدمی گناہ کر رہے ہیں یہ بھی اللہ کے بندے ہیں، یہ جاہلانہ جواب ہے اللہ کے بندے تو ہیں مگر گناہگار بندے ہیں۔ تمہیں پرہیزگار بندوں کی راہ اختیار کرنی چاہئے برے بندوں کے پیچھے کیوں چلتے ہو۔ الیکشن کی قباحت آیت کریمہ سے الیکشن کی قباحت بھی معلوم ہوگئی چونکہ الیکشن کی بنیاد اکثریت پر رکھی گئی ہے اس لئے الیکشن میں وہ آدمی جیت جاتا ہے جس کو ووٹ زیادہ مل جائیں بلکہ جس کے حق میں ووٹوں کی گنتی زیادہ ہوجائے وہ جیتنا ہے خواہ کسی طرح بھی ہو۔ دھاندلی بھی کی جاتی ہے ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں فریق مخالف کے ووٹوں کے بکس بھی غائب کئے جاتے ہیں۔ قطع نظر ان سب باتوں کے اکثریت پر کامیابی کی بنیاد رکھنا یہ مستقل وبال ہے اور غیر کے دین پر نہ خود چلنا ہے نہ دوسروں کو چلنے دینا ہے ایسے لوگوں کی رائے کا شرعاً کچھ وزن نہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے بہت سے لوگ جنہیں علم کا گمان بھی ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے فلاں ملک میں جمہوریت گئی ہے گویا انہوں نے دین کا بہت بڑا کام کردیا۔ یہ لوگ جمہوریت کے دینی نقصانات جانتے ہوئے اس کے لئے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں پھر جمہوریت کے اصول پر جو بھی کوئی بد سے بدتر ملحد زنذیق منکر اسلام منتخب ہوجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں ‘ کسی حلقے میں ووٹ ہوں اور اکیاون ووٹ کسی ملحد بےدین کو مل جائیں (جو اسی جیسے بےدینوں سے ملتے ہیں) تو فاسق فاجر الیکشن جیت لیتا ہے اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے کسی ملک کے چھوٹے بڑے عہدہ کے لئے کسی بھی فاسق فاجر کی رائے پر اعتماد کرنا درست نہیں جو لوگ اکثریت کے فیصلہ پر ایمان لاتے ہیں (اور اکثریت کا بےدین فاسق فاجر ہونا معلوم ہے) وہ (وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ) پر بار بار دھیان کریں۔ پھر فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ (اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج 7 ص 37۔ ” اں مدار الاعتبار ھوالخیر یۃ والرداء ۃ لا الکثرہ والقلۃ “ (ج) یعنی خبیث کے بچنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگرچہ زیادہ ہو اور طیب کو ترجیح دو اگرچہ کم ہو کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا مدار اچھائی اور برائی اختیار کرنے پر ہے قلت یا کثرت پر نہیں۔
Top