Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
۔ تحقیق تم سے پہلے ایک قوم ایسے ہی سوال کرچکے ہیں پھر اس کا انکار کرنے لگے۔
گزشتہ قوموں نے سوال کئے پھر منکر ہو گئے پھر فرمایا (قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ ) کہ تم سے پہلے لوگوں نے سوال کئے تھے پھر ان کے منکر ہوگئے یعنی جب ان سوالات کا جواب دیا گیا تو ان جوابوں سے منتفع نہ ہوئے اور جو حکم ملا اس پر عمل نہ کیا۔ یہود و نصاریٰ کی ایسی عادت تھی پوچھتے تھے پر عمل نہیں کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا یہ سوال کرنا کہ آسمان سے مائدہ نازل ہو۔ یہ تو مشہور ہی ہے مائدہ نازل ہوا تو ان لوگوں سے کہا گیا تھا کہ جو کھا سکتے ہو کھالو۔ اس سے اٹھا کر نہ رکھنا لیکن وہ لوگ نہ مانے اور گنہگار ہوئے۔ اسی طرح قوم ثمود نے پہاڑ سے اونٹنی نکالنے کا سوال کیا پھر جب اونٹنی نکل آئی تب بھی ایمان نہ لائے اور اونٹنی کو کاٹ ڈالا۔ جو کوئی ضرورت پیش آگئی ہو اس کے بارے میں سوال کرنا درست ہے اور خواہ مخواہ بلا ضرورت سوال کرنے میں اضاعت وقت بھی ہے اور لایعنی کا ارتکاب بھی، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مِنْ حُسْنِِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ (ترمذی) یعنی انسان کے اسلام کے ایک خوبی یہ ہے کہ لایعنی چیزکو چھوڑ دے۔ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ فرائض وواجبات تک نہیں جانتے نماز تک یاد نہیں لیکن ادھر ادھر کے سوالات کرتے رہتے ہیں۔ علامہ ابوبکر جصاص ؓ کا ارشاد علامہ ابوبکر جصاص ؓ احکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے آیت بالا سے اس پر استدلال کیا ہے کہ حوادث اور نوازل کے بارے میں جواب وسوال نہ کیا جائے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائے تو ہمیں ان کی حاجت نہیں لہٰذا جو احکام غیر منصوص ہیں ان کے بارے میں غوروفکر کی ضرورت نہیں ان لوگوں کا یہ کہنا صحیح نہیں احکام غیر منصوصہ کے بارے میں سوال کرنا آیت کے مفہوم میں داخل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ناجیہ بن جندب ؓ کو ھدی کے اونٹ حرم مکہ لے جانے کی ذمہ داری پیش کی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کوئی جانور ہلاک ہونے لگے تو اس کا میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کو ذبح کردینا اور اس کے جوتے کو (جو بطور نشانی کی اس کی گردن میں پڑا ہو کہ یہ ھدی کا جانور ہے) خون سے رنگ دینا۔ حضرت ناجیہ ؓ نے ایک صورت حال کے بارے میں سوال کیا جو پیش آسکتی تھی۔ آپ کو اس سوال سے بھی ناگواری نہ ہوئی اور جواب عنایت فرما دیا۔ شیخ ابوبکر جصاص ؓ نے اور دو تین روایتیں ایسی نقل کی ہیں جن میں پیش آسکنے والے واقعات کے بارے میں سوال پیش کرنے پر آنحضرت ﷺ کے جواب دینے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں اس طرح کی بہت احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امور غیر منصوصہ کے بارے میں سوال کرنا ممنوع نہیں پھر لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام ؓ مسجد میں جمع ہوتے اور نئے نئے مسائل کے بارے میں آپس میں مذاکرہ کرتے تھے اور یہی حضرات تابعین کا معمول رہا اور ان کے بعد فقہا نے اپنا معمول بنا لیا اور آج تک ایسا ہورہا ہے اس کے بعد شیخ ابوبکر جصاص ؓ لکھتے ہیں کہ امور غیر منصوصہ کے بارے میں بولنے سے اور ان کا فقہ مستنبط کرنے سے عاجز رہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشا ہے : ” رب حامل فقہ غیر فقیہ و رب حامل فقہ الی من ھوا فقہ منہ “ (بہت سے حامل فقہ ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچا دیتے ہیں) علامہ جصاص ؓ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ جماعت جو احکام غیر منصوصہ میں غور فکر کرنے کا انکار کرتی ہے یہ لوگ اس آیت کا مصداق ہے۔ (مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا)
Top