Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو، جبکہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا سو اس نے ان کے ہاتھو کو تم تک پہنچنے سے روک دیا، اور اللہ سے ڈرو، اور چاہیئے کہ ایمان والے اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا ایک خاص واقعہ اور اللہ کی نعمت کی یاد ہانی اسباب النزول ص 186 میں حضرت جابر ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص جس کا نام غورث تھا اس نے اپنی قوم بنی غطفان اور بنی محارب سے کہا کہ کیا میں محمد ﷺ کو قتل نہ کردوں ؟ وہ لوگ کہنے لگے کہ تو کیسے قتل کرے گا اس نے کہا کہ اچانک ایسی صورت بنا کر قتل کردوں گا کہ اس کی طرف دھیان بھی نہ جائے۔ یہ کہہ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کی گود میں آپ کی تلوار تھی۔ یہ شخص کہنے لگا اے محمد ! ﷺ کیا میں آپ کی تلوار دیکھ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں دیکھ لے ! اس نے تلوار لے لی اور نیام سے باہر نکال لی وہ ہاتھ میں تلوار لے کر ہلاتا رہا۔ اور ارادہ کرتا رہا کہ آپ پر حملہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ارادہ میں ناکامی ہوتی رہی۔ پھر وہ کہنے لگا اے محمد ! کیا آپ مجھ سے نہیں ڈرتے آپ نے فرمایا نہیں ! کہنے لگا کہ آپ مجھ سے نہیں ڈرتے حالانکہ میرے ہاتھ میں تلوار ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ میری حفاظت فرمائے گا اس کے بعد اس نے تلوار نیام میں رکھ دی اور آنحضرت ﷺ کو واپس کردی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بالا نازل فرمائی۔ اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ ﷺ کو اپنی نعمت یاد دلائی کہ اس نے ان کے نبی کی حفاظت فرمائی جس میں امت پر بھی انعام و احسان ہے۔ تقویٰ اور توکل کا حکم آخر میں تقوی کا حکم دیا اور ساتھ توکل کا حکم فرمایا کہ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے تقویٰ اور توکل بہت بڑی چیزیں ہیں۔ اہل ایمان کے سب کام ان دونوں سے چلتے ہیں جسے اللہ پر توکل ہو وہ مخلوق سے نہیں ڈرتا۔ تقویٰ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے گناہوں سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل سے بچنے کا راستہ نکال دے گا۔ سورة طلاق میں فرمایا (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِِبُ وَمَنْ یَّتَوَ کّلُ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ) (اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مشکلوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور اللہ اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے اللہ اس کے لئے کافی ہے ) ۔
Top