Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور جب میں نے وحی کے ذریعے حواریین کو حکم دیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ بلا شبہ ہم فرماں بردار ہیں۔
حواریوں کا سوال کرنا کہ مائدہ نازل ہو یہ پانچ آیات ہیں ان میں سے ایک آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ پاک نے بذریعہ وحی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو یہ حکم دیا کہ اللہ پاک پر ایمان لائیں اور اس کے رسول پر۔ ان لوگوں نے کہ ہم ایمان لائے اور آپ ہمارے فرمانبردار ہونے کے گواہ ہوجائیں۔ لفظ اَوْحَیْتَ سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ وحی تو حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر آتی تھی پھر حواریوں پر کیسے وحی آئی جو نبی نہ تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی کا اصل معنی ہے دل میں ڈال دینا جیسا کہ شہد کی مکھی کے لئے بھی لفظ اَوْحٰی وارد ہوا ہے۔ اَوْحَیْتَ کا معنی اگر یہ لیا جائے تو بنی اسرائیل کے دلوں میں اللہ نے یہ بات ڈالی کہ ایمان قبول کریں ایمان پر جمے رہیں تو درست ہے اس بات میں کوئی استبعاد نہیں۔ اور اَوْحَیْتَ کے اگر یہ معنی لئے جائیں کہ اللہ نے اپنے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ پیغام بھیجا تو یہ بھی صحیح ہے۔ اس کے بعد چار آیات میں سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے حواریوں کا ” مائدہ “ یعنی خوان اترنے کا سوال کرنا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ان کو جواب دینا اور پھر اللہ جل شانہ سے مائدہ کا سوال کرنا مذکور ہے۔ حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) جو معجزے دکھاتے تھے (جن کا ذکر عنقریب ہی گذرا ہے) وہ معجزے ایک سمجھدار آدمی کے لئے کافی تھے لیکن حواریوں نے مزید سوال کئے اور سوال بھی عجیب کیا اور وہ یہ کہ آسمان سے خوان نازل ہوجائے جس میں پکا پکایا کھاناہو، طرز سوال بھی مناسب نہ تھا۔ انہوں نے یوں نہیں کہا کہ آپ اللہ سے عرض کریں کہ مائدہ نازل فرما دے بلکہ یوں کہا کہ کیا تمہارا رب یوں کرسکتا ہے کہ آسمان سے خوان نازل فرما دے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا سوال اور طرز سوال نا گوار ہوا اور فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ ) کہنے سے ان کا مقصد اللہ کی قدرت میں شک کرنا نہیں تھا بلکہ مطلب یہ تھا کہ آپ اگر سوال کریں تو آپ کا یہ سوال پورا فرما دے گا یا نہیں لیکن ان کے الفاظ نامناسب تھے اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مؤاخذہ میں شدت نہیں فرمائی۔ بلکہ (اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) فرما کر ناگواری کی طرف اشارہ فرما دیا اور اس میں یہ بھی بتادیا کہ اپنی طرف سے معجزات کی فرمائشیں کرنا مومنین کا کام نہیں۔ بعض سابقہ امتوں نے ایسی فرمائشیں کیں پھر ان کی فرمائشوں کے مطابق معجزہ ظاہر ہوا تب بھی ایمان نہ لائے۔ قوم ثمود نے سوال کیا کہ پہاڑ سے اونٹنی نکل آئے اونٹنی پہاڑ سے نمودار ہوگئی تب بھی اسلام قبول نہ کیا۔ بالآخر عذاب میں گرفتار ہوئے اور برباد ہوئے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو تو وہ کہنے لگے کہ ہمارا تو یہ مقصد ہے کہ اس خوان سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان ہوجائے اور عین الیقین کے طریقہ پر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے فرمایا وہ سب سچ ہے اور یہ اطمینان قلبی حاصل ہونے کا ارادہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے (رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی) کی دعا کر کے (لِیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ) کہا تھا۔ حواریین نے یہ بھی کہا کہ اس مائدہ کے نازل ہونے کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ جن لوگوں نے اس کو نہیں دیکھا ہوگا ہم ان کے لئے گواہی دینے والوں میں سے بن جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول مائدہ کے لئے سوال کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملنا الحاصل حضرت سید نا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ پاک کے حضور میں آسمان سے مائدہ اتارے جانے کی درخواست پیش کردی اور عرض کیا کہ اے اللہ ! آسمان سے مائدہ نازل فرما دیجئے جو ہمارے اس زمانہ کے لوگوں کے لئے عید ہو اور ہمارے بعد والے لوگوں کے لئے بھی۔ اللہ جل شانہ ارشاد فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں اس کے اتر جانے کے بعد تم میں سے جو شخص نا شکری کرے گا اس کو وہ عذاب دوں گا جو جہانوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا۔ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ مائدہ نازل نہیں ہوا۔ لیکن قرآن مجید کا سیاق یہی بتاتا ہے کہ مائدہ نازل ہوا اور بعض احادیث میں بھی مائدہ نازل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ تفسیر در منثور ج 2 ص 348 میں بحوالہ ترمذی وغیرہ حضرت عمار بن یاسر ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آسمان سے مائدہ نازل کیا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا ان کو حکم تھا کہ خیانت نہ کریں اور کل کے لئے نہ رکھیں لیکن ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور ذخیرہ بھی بنا کر رکھا۔ لہٰذا وہ بندروں اور سؤروں کی صورتوں میں مسخ کردیئے گئے۔ (حدیث مرفوع لکن قال الترمذی الوقف اصح) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا شکری بہت بری چیز ہے اس کا بڑا وبال ہے نا شکری کرنے سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں جن کا ذکر جگہ جگہ قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ سورۂ ابراہیم میں فرمایا (لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزْیْدَنَّکُمْ وَ لَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ) (اور جب تیرے رب نے اعلان فرما دیا کہ یہ بات ضروری ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب سخت ہے) قوم سبا کی بربادی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِمَا کَفَرُوْا وَ ھَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ ) کہ ہم نے ان کو بدلہ دیا اس وجہ سے کہ انہوں نے نا شکری کی اور ہم نا شکری کرنے والوں ہی کو بدلہ دیا کرتے ہیں) ۔ سورۂ نحل میں ایک بستی کا ذکر فرمایا جسے خوب زیادہ نعمتیں مل رہی تھیں (فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ) گوشت کے خراب ہونے کی ابتداء بنی اسرائیل سے ہوئی جن لوگوں نے نزول مائدہ کی فرمائش کی تھی ان لوگوں نے بھی نافرمانی کی یعنی باوجود ممانعت کے کل کے لئے اٹھا کر رکھ دیا۔ اور نافرمانی بہت بڑی نا شکری ہے۔ ان لوگوں سے پہلے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی ایسی حرکت کرچکے تھے ان سے فرمایا تھا کہ من وسلویٰ جو نازل ہوتا ہے اس کو بعد کے لئے اٹھا نہ رکھنا لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا لہٰذا وہ گوشت سڑ گیا اور ہلاک ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے گوشت کے سڑنے کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لولابنو اسرائیل لم یخبث الطعام ولم یخنز اللحم ولولاحواء لم تخن انثی زوجھا الدھر (راوہ مسلم ج 1 ص 475) یعنی اگر بنی اسرئیل نہ ہوتے تو کھانا خراب نہ ہوتا اور گوشت نہ سڑتا۔ اور اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت کبھی بھی اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی۔ بنی اسرائیل سے گوشت سڑنے کی ابتداء ہوئی اور حضرت حواء سے شوہر کی خیانت کی ابتداء ہوئی۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ ان کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے شوہر حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس درخت کے کھانے پر آمادہ کیا جس کے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا۔
Top