Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
مَا قُلْتُ : میں نے نہیں کہا لَهُمْ : انہیں اِلَّا : مگر مَآ اَمَرْتَنِيْ : جو تونے مجھے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنِ : کہ اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّىۡ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب وَكُنْتُ : اور میں تھا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : خبردار مَّا دُمْتُ : جب تک میں رہا فِيْهِمْ : ان میں فَلَمَّا : پھر جب تَوَفَّيْتَنِيْ : تونے مجھے اٹھا لیا كُنْتَ : تو تھا اَنْتَ : تو الرَّقِيْبَ : نگران عَلَيْهِمْ : ان پر واَنْتَ : اور تو عَلٰي : پر۔ سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : باخبر
میں نے ان سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا جو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے۔ اور میں ان کے بارے میں باخبر تھا جب تک میں ان میں موجود تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان کے نگران تھے اور آپ ہر چیز پر مطلع ہیں۔
گمراہوں کی تردید بعض گمراہ لوگ ایسے نکلے ہیں جو لفظ (فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ ) سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔ اور یہ لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء یعنی آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے منکر ہیں۔ یہ لوگ آیت قرآنیہ (بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ) کے اور بیسیوں حدیثوں کے منکر ہیں۔ جن میں سیدنا عیسیٰ کا قیامت سے پہلے آسمانوں سے اترنا اور اس دنیا میں رہنا طبعی وفات پانا مذکور ہے اول تو لفظ توفی ضروری نہیں کہ موت ہی کے لئے استعمال ہو۔ قرآن مجید میں نیند کے لئے استعمال ہوا ہے۔ سورۂ انعام میں ہے (وَ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّھَارِ ) اور سورة زمر میں ہے۔ (اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا) ان دونوں آیتوں میں توفی کو منام یعنی نیند کے لئے استعمال فرمایا۔ درحقیقت تو فی کا معنی ہے کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یہ مفہوم زندہ اٹھا لینے اور سلا دینے اور موت دیدینے تینوں کو شامل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ گفتگو قیامت کے میدان میں ہو رہی ہے، اور اس وقت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے تشریف لا کر زمین میں رہ کر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ لہٰذا تَوَفَّیتَنِیْکو موت کے معنی میں لیا جائے تب بھی ان ملحدوں کا استدلال صحیح نہیں۔ جو اپنے تراشیدہ عقیدہ کے مطابق قرآن مجید کے مفاہیم تجویز کرتے ہیں۔ پھر فرمایا ،
Top