Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 78
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ
لُعِنَ : لعنت کیے گئے (ملعون ہوئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا مِنْ : سے بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل عَلٰي : پر لِسَانِ : زبان دَاوٗدَ : داود وَعِيْسَى : اور عیسیٰ ابْنِ مَرْيَمَ : ابن مریم ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور وہ تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھتے
بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر تھے وہ ملعون ہوئے داؤد کی زبان پر اور عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی زبان پر، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرتے تھے
معاصی کا ارتکاب کرنے اور منکرات سے نہ روکنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کی ملعونیت ان آیات میں بنی اسرائیل کی ملعونیت اور مغضوبیت بیان فرمائی ہے اور ان کی بد اعمالیوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان بد اعمالیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو گناہ کے کام سے نہیں روکتے تھے، تفسیر ابن کثیر میں مسند احمد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑگئے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا وہ لوگ گناہوں سے باز نہ آئے پھر یہ منع کرنے والے ان کے ساتھ مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے (اور اس میل جول اور تعلق کی وجہ سے انہوں نے گناہوں سے روکنا چھوڑ دیا) لہٰذا اللہ نے بعض کے دلوں کو بعض پر مار دیا یعنی یکساں کردیا اور ان کو داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی زبانی ملعون کردیا۔ پھر آیت بالا کا یہ حصہ (ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ) پڑھا، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے آپ ﷺ تکیہ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اپنی ذمہ داری سے اس وقت تک سبکدوش نہ ہو گے جب تک گناہ کرنے والوں کو منع کر کے حق پر نہ لاؤ گے۔ (ج 2 ص 82) سنن ابی داؤد ج 2 ص 240 میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ سب سے پہلے جو بنی اسرائیل میں نقص وارد ہوا وہ یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے سے ملاقات کرتا تھا (اور اسے گناہ پر دیکھتا تھا) تو کہتا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور یہ کام چھوڑ دو کیونکہ وہ تیرے لئے حلال نہیں، پھر کل کو ملاقات کرتا اور گناہ میں مشغول پاتا تو منع نہ کرتا تھا کیونکہ اس کا اس کے ساتھ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے میں شرکت کرنے والا آدمی ہوتا تھا سو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے ان کے قلوب کو آپس میں ایک دوسرے پر مار دیا یعنی یکساں بنا دیا پھر آپ ﷺ نے آیت بالا (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) سے (فَاسِقُوْنَ ) تک تلاوت فرمائی، پھر فرمایا کہ خوب اچھی طرح سمجھ لو اللہ کی قسم ! تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر کرتے رہو اور ظالم کا ہاتھ پکڑتے رہو اور اسے حق پر جماتے رہو (برائی سے) اس سے برائی چھڑا دو ۔ نیز سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ عام عذاب لے آئے جس میں سب مبتلا ہوں گے۔ نیز سنن ابو داؤ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص کسی قوم میں گناہ کرنے والا ہو اور جو لوگ وہاں موجود ہوں قدرت رکھتے ہوئے اس کے حال کو نہ بدلیں یعنی اس سے گناہ کو نہ چھڑائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی موت سے پہلے ان پر عام عذاب بھیج دے گا۔
Top