Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بلاشبہ متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے،
متقی بندوں کے انعامات کا اور دنیا میں اعمال صالحہ میں مشغول رہنے کا تذکرہ مکذبین کی سزا بتانے کے بعد مومنین متقین کا انعام بتایا اور فرمایا کہ متقی لوگ باغوں میں چشموں میں ہوں گے ان کے رب کی طرف سے انہیں وہاں جو کچھ دیا جائے گا اسے (بڑی خوشی سے) لینے والے ہوں گے، دنیا میں یہ حضرات گناہوں سے تو بچتے ہی تھے جس کی وجہ سے انہیں متقین کے لقب سے سرفراز فرمایا، اعمال صالحہ بھی بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیتے تھے اور اس کی وجہ سے انہیں محسنین کے لقب سے ملقب فرمایا ان کے نیک کاموں میں ایک بڑا قیمتی عمل یہ تھا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے نمازیں پڑھتے رہتے تھے دنیا سوتی رہتی اور یہ لوگ جاگتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے لو لگاتے تھے۔ قال صاحب الروح : ناقلاً عن الحسن : کا بدوا قیام اللیل لا ینامون منہ الا قلیلا، وعن عبداللّٰہ بن رواحة رضی اللّٰہ عنہ ھجعوا قلیلاً ثم قاموا۔ یہ لوگ راتوں کو نماز پڑھتے اور راتوں کے آخری حصہ میں استغفار کرتے تھے انہیں راتوں رات نماز پڑھنے پر غرور نہیں تھا اپنے اعمال کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرنے کے لائق نہیں سمجھتے تھے کوتاہیوں کی وجہ سے استغفار کرتے تھے۔ اہل ایمان کا یہ طریقہ ہے کہ نیکی بھی کریں اور استغفار بھی کریں تاکہ کوتاہی کی تلافی ہوجائے۔ ان حضرات کی جسمانی عبادت کا تذکرہ فرما کر ان کے انفاق مالی کا تذکرہ فرمایا کہ ان کے مالوں میں حق ہے سوال کرنے والوں کے لیے اور محروم کے لیے یعنی اپنے مالوں کا جو حصہ اہل حاجت کو دیتے ہیں اس کے دینے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں جیسے ان کے ذمہ واجب ہو اس لیے اسے حق سے تعبیر فرمایا۔ لفظ سائل کا ترجمہ تو معلوم ہے محروم کا کیا مطلب ہے ؟ مفسرین نے اس کے کئی معنی لکھے ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ سائل کے مقابلہ میں ہے یعنی جو شخص سوال نہیں کرتا وہ محروم ہے جو سوال نہیں کرتا اس لیے محروم رہ جاتا ہے کہ لوگ اس کا حال جانتے نہیں اور وہ خود بتاتا نہیں لہٰذا دینے والے اس کی طرف دھیان نہیں کرتے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک لقمہ اور دو لقمہ اور ایک کھجور اور دو کھجور لیے لیے پھرتے ہوں لیکن مسکین وہ ہے جس کے پاس حاجت پوری کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو اور لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہ چلے (پتہ چل جاتا تو صدقہ کردیتے) اور وہ سوال کرنے کیلئے کھڑا بھی نہیں ہوتا۔ (رواہ البخاری جلد 1) یعنی وہ اسی طرح اپنی حاجت دبائے ہوئے وقت گزار دیتا ہے، صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے محروم کا یہ معنی لکھا ہے کہ وہ کمانے کی تدبیریں تو کرتا ہے لیکن دنیا اس سے پشت پھیر لیتی ہے اور وہ لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا۔ پھر حضرت زید بن اسلم ؓ سے نقل کیا ہے کہ محروم وہ ہے جس کے باغوں کا پھل ہلاک ہوجائے اور ایک قول یہ لکھا ہے کہ جس کے مویشی ختم ہوجائیں جن سے اس کا گزارا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top