Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
کیا ابراہیم کے معزز مہمانوں کی حکایت آپ کو پہنچی ہے،
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مہمانوں کا آنا اور صاحبزادہ کی خوشخبری دینا، اور آپ کی بیوی کا تعجب کرنا ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آبائی وطن سے (جو بابل کے آس پاس تھا) ہجرت فرما کر فلسطین میں قیام فرمایا تھا آپ کے ساتھ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی ہجرت کر کے ملک شام میں آ کر بس گئے تھے۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا تھا، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جن بستیوں میں رہتی تھی وہ شام کے علاقہ میں نہر اردن کے آس پاس تھیں۔ یہ لوگ بڑے نافرمان تھے برے کام میں لگے رہتے تھے۔ مردوں سے قضاء شہوت کیا کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا لیکن یہ لوگ ایمان نہ لائے نہ اپنی حرکتوں سے باز آئے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے فرشتوں کو بھیجا، یہ فرشتے انسانی شکل میں اولاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے چونکہ یہ حضرات اللہ کے مقرب اور مکرم بندے تھے اس لیے یوں فرمایا کہ کیا آپ کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؟ یہ حضرات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دے دیا۔ لیکن چونکہ ان حضرات سے ابھی ابھی نئی ملاقات ہوئی تھی اس لیے ﴿ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ﴾ فرمایا یعنی آپ حضرات بےجان پہچان کے لوگ ہیں۔ ابھی آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اندر اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے گئے اور بھنا ہوا فربہ بچھڑا لے کر باہر تشریف لائے اور مہمانوں کے پاس رکھ دیا اور کھانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ﴿ اَلَا تَاْكُلُوْنَٞ﴾ کیا آپ حضرات نہیں کھاتے، زبان سے کہنے پر بھی انہوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ یہ ماجرا دیکھا تو مزید توحش ہوا۔ یہاں سورة الذاریات میں ہے ﴿ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ﴾ فرمایا کہ ان کی طرف سے دل میں خوف محسوس کیا اور سورة الحجر میں ہے کہ زبان سے بھی ﴿ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ 0052﴾ فرما دیا کہ ہم آپ سے خوف زدہ ہو رہے ہیں، مہمانوں نے کہا ﴿ لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ 0053﴾ کہ آپ نہ ڈریئے ہم آپ کو ایک صاحب علم لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اب مجھے کیسی بشارت دے رہے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی وہیں کھڑی تھیں ان کو خوشخبری سنائی کہ تمہارا ایک بیٹا اسحاق ہوگا اور اس کا بھی ایک بیٹا ہوگا وہ کہنے لگیں ہائے، خاک پڑے کیا میں اب جنوں گی اور حال یہ ہے کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور اتنا ہی نہیں بلکہ یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں یہ تو عجیب بات ہے۔ یہ مضمون سورة ٴ ہود میں مذکور ہے یہاں سورة الذاریات میں فرمایا ہے ﴿فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ ﴾ کہ ان کی بیوی بولتی ہوئی پکارتی ہوئی آئیں ﴿ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا﴾ انہوں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ﴿ وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ0029﴾ اور کہنے لگیں میں بڑھیا ہوں، بانجھ ہوں۔ یہاں سورة الذاریات میں لفظ عقیم یعنی بانجھ کا بھی اضافہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی بورھے تو تھے ہی اس سے پہلے اس خاتون سے کبھی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ فرشتوں نے کہا ﴿ كَذٰلِكِ 1ۙ قَالَ رَبُّكِ 1ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ 0030﴾ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے بیشک وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے اور جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے فرشتوں کی بشارت کے مطابق لڑکا پیدا ہوا اور اس بیٹے کا بیٹا یعقوب بھی وجود میں آیا جس کا لقب اسرائیل تھا اور سب بنی اسرائیل ان کی اولادیں ہیں۔
Top