Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 42
اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًا١ؕ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَؕ
اَمْ يُرِيْدُوْنَ : یا وہ چاہتے ہیں كَيْدًا ۭ : ایک چال فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : تو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا هُمُ الْمَكِيْدُوْنَ : وہ مکر کیے گئے ہیں
کیا وہ لوگ کسی برائی کا ارادہ رکھتے ہیں سو جن لوگوں نے کفر کیا وہ خود ہی برائی میں گرفتار ہوں گے،
پھر فرمایا ﴿ اَمْ يُرِيْدُوْنَ كَيْدًا 1ؕ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِيْدُوْنَؕ0042﴾ (کیا وہ لوگ بری تدبیر کا ارادہ رکھتے ہیں سو جن لوگوں نے کفر کیا وہ خود ہی تدبیر کی زد میں آنے والے ہیں) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آیت بالا نازل ہونے کے کئی سال بعد اس پیشن گوئی کا ظہور ہوا جس کا اس آیت میں اظہار فرمایا ہے، مشرکین مکہ مشورہ لے کر بیٹھے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا کریں اس پر تین باتیں آئیں جن کو سورة انفال کی آیت کریمہ ﴿وَ اِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ میں بیان فرمایا ہے ان لوگوں کی سب تدبیریں دھری رہ گئیں اور رسول اللہ ﷺ صحیح سلامت مدینہ منورہ پہنچ گئے آپ کا مدینہ منورہ تشریف لانا غزوہ بدر کا سبب بنا اور غزوہ بدر میں قریش مکہ میں سے ستر افراد مقتول ہوئے جن میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی تھے مکر اور تدبیر والے خود ہی مکر کی زد میں آگئے۔ (روح المعانی صفحہ 29 ج 27) ھم المکیدون ای الذین یلحق بھم کیدھم ویعود علیہم و بالہ لا من ارادو ان یکیدوہ وکان وبالہ فی حق اولئك قتلھم یوم بدر فی السنة الخامسة عشر من النبوة۔
Top