بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے
رسول اللہ ﷺ صحیح راہ پر ہیں، اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے، وحی کے مطابق اللہ کا کلام پیش کرتے ہیں، آپ نے جبرائیل کو دو بار ان کی اصلی صورت میں دیکھا یہاں سے سورة النجم شروع ہے اس کے پہلے رکوع کے اکثر حصہ میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور وحی کی حفاظت اور وحی لانے والے فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی قوت اور ان کی رؤیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ001﴾ (قسم ہے ستارہ کی جب غروب ہونے لگے) ۔ ﴿ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ002﴾ (تمہارا ساتھی نہ راہ سے بھٹکا ہے اور نہ غلط راستہ پر پڑا ہے) ۔ ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ003﴾ (اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے بات نہیں کرتا) ۔ ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ004﴾ (وہ نہیں ہے مگر جو وحی کی جاتی ہے) ۔ آیت شریفہ میں جو لفظ النجم وارد ہوا ہے بظاہر یہ صیغہ مفرد کا ہے لیکن چونکہ اسم جمع ہے اس لیے تمام ستارے مراد ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے ثریا مراد ہے جو سات ستاروں کا مجموعہ ہے، ستارے چونکہ روشنی دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں اس لیے ان کی قسم کھا کر نبوت اور رسالت اور وحی کو ثابت فرمایا ہے کیونکہ یہ چیزیں قلوب کے منور ہونے کا ذریعہ ہیں، رسوال اللہ ﷺ تو کبھی بھی مشرک نہ تھے نبوت سے پہلے بھی موحد تھے اور نبوت کے بعد بھی آپ کا موحد ہونا توحید کی دعوت دینا قریش کو ناگوار تھا اور وہ یوں کہتے تھے کہ انہوں نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں اور آپ کو کاہن یا ساحر یا شاعر کہتے تھے، ستارہ کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ ﷺ جو کچھ بتاتے ہیں اور جو دعوت دیتے ہیں وہ سب حق ہے ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ راہ سے بھٹک گئے اور غیر راہ پر پڑگئے ان کا دعوائے نبوت اور توحید کی دعوت اور وہ تمام امور جن کی دعوت دیتے ہیں یہ سب حق ہیں سراپا ہدایت ہیں ان میں کہیں سے کہیں تک بھی راہ حق سے ہٹنے کانہ کوئی احتمال ہے اور نہ یہ بات ہے کہ انہوں نے یہ باتیں اپنی خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہی ہوں، ان کا یہ سب باتیں بتانا صرف وحی سے ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان پر وحی کی گئی ہے اسی کے مطابق سب باتیں بتا رہے ہیں ان کا فرمانا سب سچ ہے جو انہیں اللہ کی طرف سے بطریقہ وحی بتایا گیا ہے اور چونکہ ستاروں کے غروب ہونے سے صحیح سمت معلوم ہوجاتی ہے اس لیے وَ النَّجْمِ کے ساتھ اِذَا هَوٰى بھی فرمایا، یعنی جس طرح ستارہ ہدایت بھی دیتا ہے اور صحیح سمت بھی بتاتا ہے اسی طرح تمہارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اور سمجھایا حق ہے اور راہ حق کے مطابق ہے۔ ان کا اتباع کرو گے تو صحیح سمت پر چلتے رہو گے یہ شخص تمہارا ساتھی ہے بچپن سے اس کو جانتے ہو اور اس کے اعمال صادقہ اور احوال شریفہ سے واقف ہو ہمیشہ اس نے سچ بولا ہے جانتے پہچانتے ہوئے اس کی تکذیب کیوں کرتے ہو (جس نے مخلوق سے کبھی جھوٹی باتیں نہیں کیں وہ خالق تعالیٰ شانہٗ پر کیسے تہمت رکھے گا) ۔
Top