Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 35
یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ١ۙ۬ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِۚ
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا : چھوڑ دیا جائے گا تم پر شُوَاظٌ : شعلہ مِّنْ نَّارٍ : آگ میں سے وَّنُحَاسٌ : اور دھواں فَلَا تَنْتَصِرٰنِ : تو نہ تم دونوں مقابلہ کرسکو گے
تم دونوں پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا سو تم اسے ہٹا نہ سکو گے،
قیامت کے دن کفار انس و جانّ کی پریشانی، مجرمین کی خاص نشانی، پیشانی اوراقدام پکڑ کر دوزخ میں ڈالا جانا ان آیات میں قیامت کے دن کا کچھ حال بتایا ہے اور مجرموں کا دوزخ میں داخلہ اور وہاں جو ان کی بدحالی ہوگی اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ان حالات کا پیشگی اطلاع دینا بھی نعمت ہے تاکہ لوگ کفر سے اور بداعمالیوں سے بچیں اور قیامت کے دن بدحالی اور دوزخ کے داخلہ سے بچیں اس لیے ہر آیت کے ختم پر ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا۔ اول تو یہ فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو تم دونوں پر آگ کے شعلے پھینکے جائیں گے اور دھواں بھی پھینکا جائے گا یہ دھواں بھی آگ ہی سے نکلا ہوا ہوگا چونکہ اس میں روشنی نہ ہوگی اس لیے اسے نحاس یعنی دھویں سے تعبیر فرمایا، اس کے سخت گرم ہونے میں تو کوئی شک نہیں سورة المرسلات میں فرمایا ہے : ﴿اِنْطَلِقُوْۤا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍۙ0030 لَّا ظَلِيْلٍ وَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ اللَّهَبِؕ0031 اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِۚ0032 كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌؕ0033 وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 0034﴾ (چلو ایک سائبان کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں جو سایہ والا نہیں ہے اور نہ وہ گرمی سے بچاتا ہے، بیشک وہ دوزخ بڑے بڑے انگارے پھینک رہا ہے جسے بڑے بڑے محل ہوں گویا کہ وہ کالے کالے اونٹ ہیں، اس روز جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہوگی) ۔ سورة المرسلات کی آیات میں بتادیا کہ دوزخ سے جو دھواں نکلے گا بظاہر ایک سائبان معلوم ہوگا، دنیا میں جو سائبان ہوتے ہیں وہ دھوپ اور سردی سے بچنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ دھواں اگرچہ تاریک ہوگا لیکن سخت گرم ہوگا اس دھویں سے بچ نہ سکو گے نہ کوئی شخص اپنی مدد کرسکے گا نہ کسی دوسرے کی۔ پھر آسمان کے پھٹنے کا تذکرہ فرمایا کہ جب وہ پھٹ جائے گا تو رنگت کے اعتبار سے ایسا سرخ ہوجائے گا جیسے لال رنگ کا چمڑا ہوتا ہے، سورة الفرقان میں فرمایا ہے ﴿ وَ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآء بالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا 0025﴾ (اور جس دن آسمان ایک بدلی پر سے پھٹ پڑے گا اور بکثرت فرشتے اتارے جائیں گے) یہ قیامت کا دن ہوگا جس میں اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ پھر فرمایا اس دن کسی انسان اور جن سے اس کے جرم کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ (مجرم سے سوال کبھی تحقیق حال کے لیے ہوتا ہے کیونکہ پوچھنے والے کو پوری طرح صورت حال معلوم نہیں ہوتی اور کبھی اسے بتانے اور جتانے کے لیے ہوتا ہے کہ تم نے ایسا ایسا کیا، اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے ہر چیز کی ہمیشہ سے اسے خبر ہے، بندوں کو پیدا فرمانے سے پہلے ہی ان کے احوال سے باخبر ہے، جو بھی مجرمین قیامت کے دن حاضر ہوں گے اسے اپنے علم میں لانے کے لیے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس آیت میں اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ مجرمین سے ان کے اعمال کا سوال اس لیے نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کا جرم آجائے، سورة القصص کی آیت ﴿ وَ لَا يُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ 0078﴾ میں بھی یہی بات بتائی اور دوسری قسم کا پوچھنا جو اقرار کرنے اور جتانے کے لیے ہوتا ہے قیامت کے دن اس کا وقوع ہوگا جسے سورة الاعراف کی آیت کریمہ ﴿فَلَنَسْـَٔلَنَّ۠ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَ لَنَسْـَٔلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَۙ006﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ پھر فرمایا کہ مجرموں کو ان کی علامت اور نشانیوں سے پہچانا جائے گا۔ ان نشانیوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے سورة الاسراء میں فرمایا ہے ﴿وَ نَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا ﴾ (اور ہم قیامت کے روز ان کو اندھا اور گونگا اور بہرہ کرکے منہ کے بل چلائیں گے) اور سورة طہٰ میں فرمایا ﴿وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًاۚۖ00102 يَّتَخَافَتُوْنَ۠ بَيْنَهُمْ﴾ (اور ہم اس روزمجرم لوگوں کو اس حالت میں جمع کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی، چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے) کافروں کا چہروں کے بل چلنا پھر اندھا گونگا اور بہرا ہونا اور آنکھیں نیلی ہونا یہ سب ان کی پہچان کی نشانیاں ہوں گی ان کے ذریعے کافروں کو پہچان لیا جائے گا اور ان کے قدموں اور پیشانی کے بال پکڑ کر گٹھڑی سی بنا کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ جب جہنم میں ڈالے جانے لگیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہ جہنم ہے جسے مجرمین جھٹلاتے تھے اب جب دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے تو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کیے جائیں گے دوزخ کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر لگاتے ہوں گے۔ جہنم تو آگ ہی آگ ہے اور آگ کے علاوہ بھی اس میں طرح طرح کے عذاب ہیں انہی عذابوں میں سے ﴿ عَذَابِ الْحَمِيْمِ﴾ یعنی گرم پانی کا عذاب بھی ہے گرم پانی ان کے سروں پر بھی ڈالا جائے گا جیسا کہ سورة الحج میں فرمایا ﴿ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُۚ0019﴾ اور پینے کے لیے پانی طلب کریں گے تو گرم پانی دیا جائے گا جیسا کہ سورة الکہف میں فرمایا ﴿ وَ اِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا۠ يُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوْهَ ﴾ (اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا، وہ چہروں کو بھون ڈالے گا) ۔ اور سورة محمد میں فرمایا ﴿ وَ سُقُوْا مَآءً حَمِيْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ 0015﴾ (اور ان کو گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا) اور سورة المومن میں فرمایا ہے ﴿يُسْحَبُوْنَۙ0071 فِي الْحَمِيْمِ 1ۙ۬ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَۚ0072﴾ (وہ لوگ گرم پانی میں کھیچیڑے جائیں گے پھر انہیں آگ میں جلایا جائے گا) ۔ یہاں سورة رحمن میں فرمایا ﴿ يَطُوْفُوْنَ بَيْنَهَا وَ بَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍۚ0044﴾ (وہ دوزخ کے اور سخت گرم پانی کے درمیان چکر لگائیں گے) مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ کبھی انہیں آگ میں ڈال کر عذاب دیا جائے گا اور کبھی گرم پانی کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ سورة الصافات کی آیت ﴿ ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَاۡاِلَى الْجَحِيْمِ 0068﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ گرم پانی پلانے کے لیے انہیں گرم پانی کی جگہ لے جایا جائے گا پھر واپس جحیم یعنی آگ کی جگہ واپس لوٹادیا جائے گا۔ بعض علماء نے آیت کے ظاہری الفاظ لے کر یہ کہا ہے کہ حمیم یعنی گرم پانی کی جگہ جحیم سے باہر ہوگی لیکن چونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دخول جہنم کے بعد پھر خروج ہو اس لیے دیگر علماء نے یہ فرمایا ہے کہ گرم پانی کی جگہ بھی دوزخ ہی کی حدود میں اندر ہی ہوگی۔ گرم پانی پی کر واپس اپنے ٹھکانہ پر لائے جائیں گے جو آگ ہی میں ہوگا حدود جہنم سے باہر جانا مراد نہیں ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ لفظ اٰنٍ اسم فاعل کا صیغہ ہے جو حمیم کی صفت ہے اس کا مادہ انیی ہے مفسرین نے اس کا ترجمہ بتاتے ہوئے لکھا ہے قدانتھی حرہ یعنی وہ انتہائی حرارت کو پہنچ چکا ہوگا۔
Top