Anwar-ul-Bayan - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس مال میں تم کو اس نے دوسروں کا قائم مقام بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو، سو جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئیں اور خرچ کریں ان کو بڑا ثواب ہوگا،
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرو یہ پانچ آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں حکم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرو ساتھ ہی ﴿ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ ﴾ بھی فرمایا ہے یعنی یہ مال وہ ہے جو تم سے پہلے دوسروں کے پاس تھا ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلیفہ بنا دیا اب یہ مال تمہارے تصرف میں ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ یہ خرچ کیا ہوا مال ضائع نہ جائے گا۔ ﴿ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ007﴾ (سو جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئیں اور خرچ کریں ان کے لیے بڑا ثواب ہے) دوسری آیت میں فرمایا کہ تمہارے لیے اس کا کیا سبب ہے کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے، اللہ نے تمہارے اندر اپنا رسول بھیج دیا وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اور مزید بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے عہد لیا تھا جس کے جواب میں تم نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا (اس سے عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ مراد ہے جو سورة اعراف میں مذکورہ ہے) ﴿ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 008﴾ اگر تمہیں ایمان لانا ہے تو ایمان لے آؤ كس بات کا انتظار ہے حجتیں قائم ہوگئیں دلائل بیان کردیئے گئے براہین سمجھ میں آگئے اب ایمان لانے میں کیوں دیر کر رہے ہو۔ فی معالم التنزیل : ان کنتم مومنین یومًا فالان اخری الاوقات ان تو منوا القیام الحجج والاعلام ببعثة محمد ﷺ ونزول القران (صفحہ 294: ج 4) تیسری آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا اور آپ پر آیات قرآنیہ نازل فرمانے کی نعمت کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا کہ اللہ وہی ہے جس نے اپنے بندہ پر واضح آیات نازل فرمائیں تاکہ وہ (کفر وشرک کی) اندھیریوں سے نور ایمان کی طرف لائے (یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے) اور بلاشبہ اللہ خوب زیادہ شفقت ورحمت فرمانے والا ہے۔ چوتھی آیت میں فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ تمہیں اس بات سے کیا چیز روکنے والی ہے کہ تم اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو سب مال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے حقیقتاً وہی مالک ہے، مجازی مالکوں کی موت کے بعد تمہیں یہ مال ملا ہے تمہارا نہ حقیقت میں اب ہے اور نہ مجازی طور پر تمہارے پاس ہمیشہ رہے گا۔ قال فی معالم التنزیل : ای شیء لکم فی ترک الانفاق فیما یقرب من اللہ وانتم میتون تارکون اموالکم (صفحہ 294 ج 4) فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والے اور بعد والے برابر نہیں ہوسکتے حضرات صحابہ ؓ میں وہ حضرات بھی تھے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا تھا اور کافروں سے جنگ لڑی تھی پھر جب مکہ فتح ہوگیا کافروں کو شکست ہوگئی تو اس کے بعد مسلمانوں کے مغلوب ہونے کا ڈر ختم ہوگیا اسی لیے فرمایا ﴿لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ 1ؕ﴾ کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے فی سبیل اللہ مال خرچ کیے اور جہاد کیے یہ جماعت اور وہ لوگ جنہوں نے اس کے بعد مال خرچ کیے اور جہاد کیے برابر نہیں ہیں۔ پہلے فریق کے بارے میں فرمایا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا 1ؕ﴾ (یہ لوگ درجہ کے اعتبار سے ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اموال خرچ کیے اور جہاد کیے) اگرچہ بعد میں خرچ کرنے والے اور جہاد میں شرکت کرنے والے بھی محروم نہ ہوں گے ثواب انہیں بھی ملے گا، اسی کو فرمایا ﴿وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى 1ؕ﴾ (اور اللہ تعالیٰ نے سب سے خوبی یعنی ثواب کا وعدہ فرمایا ہے) ﴿ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْر (رح) م 0010﴾ (اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے) جس نے جو بھی خیر کا کام کیا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ ؓ کے بارے میں ﴿ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ﴾ فرماکر اعلان عام فرما دیا کہ سب کے لیے حسنی یعنی مغفرت اور جنت ہے اور سورة توبہ کی آیت ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ ﴾ (الآیۃ) میں مہاجرین و انصار کے لیے اور جو لوگ انکا اتباع بالاحسان کریں ان کے لیے ﴿ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ﴾ فرما دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ ان کے لیے جنتیں تیار فرمائی ہیں۔ (دیکھو سورة توبہ) اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کو دیکھو اور روافض کو دیکھو جنہیں اسلام کا دعویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو صحیح نہیں مانتے، دوچار کے سوا سب صحابہ کو گمراہ اور کافر کہتے ہیں اور ان حضرات سے برات کا اعلان کیے بغیر انکو چین نہیں آتا، یاد رہے کہ سابقین اولین میں ابوبکر و عمر ؓ بھی تھے جن سے روافض کو انتہائی بغض ہے : ذلک ھوالضلال البعید۔
Top