Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 15
كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۚ
كَمَثَلِ : حال جیسا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے قبل قَرِيْبًا : قریبی زمانہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھ لیا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ۚ : اپنے کام کا وبال وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ان لوگوں کی سی مثال ہے جو ان سے کچھ پہلے تھے انہوں نے اپنے کردار کا مزہ چکھ لیا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے
یہود کے قبیلہ بنی قینقاع کی بیہودگی اور جلاوطنی کا تذکرہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ مدینہ منورہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد تھے ایک قبیلہ بنی نضیر جن کی جلاوطنی کا تذکرہ اسی سورت کے شروع میں ہوا ہے، دوسرا قبیلہ بنی قریظہ تھا جن کے مردوں کے قتل كئے جانے اور عورتوں اور بچوں کے غلام بنائے جانے کا تذکرہ سورة احزاب کے تیسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ تیسرا قبیلہ بنی قینقاع تھا جن کی جلاوطنی کا قصہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے تینوں قبیلوں سے رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ تھا کہ نہ آپس میں جنگ کریں گے اور نہ آپ کے کسی دشمن کی مدد کریں گے ان تینوں قبیلوں نے غدر کیا اور اس کا انجام بھگت لیا۔ قبیلہ بنو قینقاع پہلا قبیلہ ہے جسے سب سے پہلے مدینہ منورہ سے جلاوطن کیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ غزوہ بدر کے بعد کفار مکہ کو شکست دے کر جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سوق بنی قینقاع میں انہیں جمع کیا، اور فرمایا کہ اے یہودیو ! تم اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوسکتا ہے جو قریش کا ہوا تم اس بات کو جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم اس بات کو اپنی کتاب میں پاتے ہو اور اللہ کا تم سے عہد ہے کہ اس نبی پر ایمان لانا جو تمہارے کتاب میں مذکور ہے۔ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ اے محمد آپ اس دھوکے میں نہ رہیں کہ قریش مکہ کو شکست دینے کے بعد ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے، وہ لوگ تو اناڑی تھے جنگ کرنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے موقع پاکر انہیں شکست دیدی۔ اللہ کی قسم اگر ہم سے جنگ کی تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم، ہم ہیں۔ اسی دور ان ایک یہ واقعہ پیش آگیا کہ ایک عورت ایک یہودی سنار کے پاس دودھ بیچنے آئی یہودیوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی جو یہود بنی قینقاع اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ٹھن جانے کا ذریعہ بن گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا پتہ چلا تو پندرہ دن ان کا محاصرہ فرمایا، بالآخر انہوں نے کہا کہ جو آپ فیصلہ فرمائیں وہ ہمیں منظور ہے قریب تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیدیا جاتا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول ضد کرنے لگا اور آنحضرت ﷺ کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا اور کہنے لگا یہ (بنی قینقاع) سات سو آدمی ہیں میری مدد کرتے رہے ہیں آپ ان کو ایک ہی صبح یا ایک ہی شام میں قتل کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا کہ چلو ان کو تمہاری رائے پر چھوڑ دیا، اس کے بعد مدینہ منورہ سے ان کے جلا وطن کرنے کا فیصلہ کردیا اور اذراعات (علاقہ شام) کی طرف انہیں چلتا کردیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ صفحہ 3: ج وفتح الباری صفحہ 330: ج 7) اس واقعہ کو معلوم کرنے کے بعد اب آیت بالا کا دوبارہ ترجمہ پڑھیں مطلب یہ ہے کہ قبیلہ بنی نضیر کا وہ ہی حال ہوا جو تھوڑا عرصہ پہلے ہی ان لوگوں کا حال ہوچکا ہے جو ان سے پہلے تھے یعنی قبیلہ بنی قینقاع، ان لوگوں نے بھی عہد توڑا اور اسلام قبول نہ کیا الٹے الٹے جواب دیئے وہ بھی جلاوطن ہوئے اور بنی نضیر بھی نکال دیئے گئے، یہ تو دنیا کی تذلیل تھی آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے۔
Top