بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو بھی آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور وہ عزیز ہے حکیم ہے،
یہودیوں کی مصیبت اور ذلت اور مدینہ منورہ سے جلا وطنی یہاں سے سورة الحشر شروع ہو رہی ہے حشر عربی میں جمع کرنے کو کہتے ہیں اپنی جگہ چھوڑ کر جب کسی جگہ کوئی قوم جمع ہوجائے اس کو حشر کہا جاتا ہے قیامت کے دن کو بھی حشر اس لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف اطراف واکناف کے لوگ جمع ہوں گے۔ یہاں اول الحشر سے یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کا مدینہ منورہ سے نکالا جانا اور خیبر میں جمع ہونا مراد ہے۔ جو مدینہ منورہ سے سومیل کے فاصلہ پر شام کے راستہ میں پڑتا ہے ان لوگوں کا یہ ترک وطن رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوا تھا پھر دوبارہ ان کو حضرت عمر ؓ نے خبیر سے بھی نکال دیا اور شام کے علاقہ اریحاء اور تیماء اور اذرعات میں جا کر بس گئے تھے، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اول الحشر سے ان کا پہلی بار مدینہ منورہ سے نکل جانا مراد ہے اور حشر ثانی سے وہ اخراج مراد ہے جو حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ہوا، اسی لفظ (اول الحشر) کی وجہ سے اس سورة کو سورة الحشر کہا جاتا ہے اور چونکہ اس میں بنی نضیر کے اخراج کا ذکر ہے اس لیے حضرت ابن عباس ؓ اس کو سورة بنی نضیر کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ شروع سورت میں یہ بیان فرمایا کہ آسمانوں اور زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ کی تسبیح یعنی پاکی بیان کرتے ہیں پھر یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزیز ہے زبردست ہے غلبہ والا ہے اسے کوئی عاجز نہیں کرسکتا اور حکیم بھی ہے وہ حکمت کے مطابق اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔
Top