Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
بلاشبہ ہم نے انہیں آزمایا جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا جب کہ ان لوگوں نے آپس میں قسم کھائی کہ صبح کو چل کر پھل توڑ لیں گے
ایک باغ کے مالکوں کا عبرت ناک واقعہ رسول اللہ ﷺ کے ہجرت فرمانے کے بعد مکہ معظمہ کے مشرکوں پر اللہ تعالیٰ نے قحط بھیج دیا تھا۔ قحط کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائی، اس کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے مکہ والوں کو آزمائش میں ڈالا جیسا کہ باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، یہ باغ کہاں تھا باغ والے کون تھے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ باغ یمن میں شہر صنعاء سے دو فرسخ کے فاصلہ پر تھا اسے نمازی لوگوں نے بویا تھا جو لوگ اس کے وارث چلے آ رہے تھے وہ بڑے سخی تھے جس دن باغ کے پھل کاٹتے تھے مساکین جمع ہوجاتے تھے اسی طرح کھیتی کاٹنے کے دن اور جس دن بھوسہ اور دانہ الگ کرتے تھے مساکین آجاتے تھے، یہ لوگ مساکین کو دل کھول کر پھل اور کھیتی اور بھوسہ سے نکالے ہوئے دانے دے دیا کرتے تھے۔ آخر یہ ہوا کہ ان میں سے ایک شخص کی موت ہوگئی اس نے اپنے تین لڑکے وارث چھوڑے اب جو کھیتی کاٹنے کا موقع آیا تو ان تینوں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ مال کم ہے اہل و عیال زیادہ ہیں اب اگر ہم اسی طرح سخاوت کرتے رہیں اور مسکینوں کو دیتے رہیں تو ہمارے لیے مال کم پڑجائے گا اب تو مسکینوں سے جان چھڑانا چاہیے لہٰذا انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ آئندہ ہم بالکل صبح صبح باغ میں پہنچ جائیں گے اور مسکینوں کے آنے سے پہلے کاٹ کر گھر والوں میں لے آئیں گے۔ مشورے سے آپس میں یہ باتیں طے کیں اور قسمیں بھی کھائیں کہ ہم ضرور ایسا کریں گے۔ لیکن انشاء اللہ کسی کے منہ سے بھی نہ نکلا، اول تو مسکینوں کو محروم کرنے کی قسم کھائی دوسرے انشاء اللہ کہنا بھول گئے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے راتوں رات اس باغ پر آفت بھیج دی، یہ لوگ سو ہی رہے تھے انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ باغ کا کیا بنا رات کو جو آفت آئی تو وہ کھیتی ایسی ہوگئی کہ پہلے سے کاٹ دی گئی ہو اسی کو ﴿ فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِيْمِۙ0020﴾ سے تعبیر فرمایا، وہاں پہنچے تو کچھ بھی نہ پایا حضرت ابن عباس ؓ نے ﴿كَالصَّرِیْمِ﴾ کا ترجمہ کالرماد الا سود کیا اور فرمایا ہے کہ بنی خزیمہ کے لغت میں اس کا یہی ترجمہ ہے یعنی ان لوگوں کی کھیتی سیاہ راکھ کی طرح ہوگئی۔ صبح کو جو یہ لوگ اٹھے تو آپس میں ایک دوسرے کو بلایا کہ آؤ اگر تمہیں اپنی کھیتی کی پیداوار پوری لینی ہے اور مسکینوں کو کچھ نہیں دینا ہے تو صبح صبح چلے چلو اور جلدی چلو ورنہ عادت کے مطابق مساکین آجائیں گے، چناچہ یہ تینوں بھائی چل دیئے چلے جا رہے تھے اور آپس میں چپکے چپکے یوں کہہ رہے تھے کہ دیکھو آج ہم تک کوئی مسکین نہ پہنچنے پائے، جو کچھ مشورہ کیا ہے اس پر قابو پانے کی کوشش کرو اور اپنے مال کو اپنے قبضہ میں کرلو۔ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ باغ تو جلا ہوا ہے کہنے لگے کہ ( علیہ السلام) جی یہ ہمارا باغ نہیں ہے ہم تو راستہ بھٹک گئے ہیں چلو اپنا باغ تلاش کرو، ان میں سے بعض نے کہا کہ ارے یہ بات نہیں ہے ہمارا باغ یہیں تھا ہم اس کی خیر سے محروم کردیئے گئے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ٹھان لیا تھا کہ مساکین کو کچھ نہیں دینا ہے اس پر ہماری گرفت ہوئی ہے جس وجہ سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملا، ان میں سے جو سب سے اچھا آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں بیان کرتے یعنی انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے اب جب ان لوگوں نے باغ کو برباد دیکھا تو بڑی ندامت ہوئی اور کہنے لگے کہ ہم اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں بلاشبہ ہم نے ظلم کا فیصلہ کیا تھا کہ مسکینوں کو کچھ نہ دیں گے۔ اس کے بعد آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور الزام دینے لگے کہ تو نے یہ رائے دی تھی اور تو نے یوں کہا تھا اور کہنے لگے کہ ہائے ہماری خرابی ہم نے سرکشی والا کام کیا اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرتے۔ مساکین کو دیتے تو اچھا ہوتا سرکشی کر کے ہم نے اس محرومی کو خود مول لیا (اب سمجھ میں آگیا کہ ہمیں وہی کرنا چاہیے تھا جو ہمارے باپ دادا کرتے تھے) امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس باغ سے بہتر عطا فرمائے گا جو باغ جل کر خاکستر ہوگیا ہم اپنے رب کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان لوگوں نے اخلاص کے ساتھ توبہ کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک باغ عطا فرما دیا جس کے انگور کے خوشے اتنے بڑے بڑے تھے کہ ایک خوشہ ایک خچر پر لاد کرلے جاتے تھے۔
Top