Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 52
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح بیان کیجئے بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے نام کی
سو آپ اپنے رب عظیم کے نام کی پاکی بیان کیجیے
سورت کے ختم پر فرمایا ﴿ فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (رح) 0052﴾ (اپنے رب عظیم کے نام کی پاکی بیان کیجئے) اللہ سب سے بڑا ہے اس کا نام بھی سب ناموں سے بڑا ہے اس کی پاکی بیان کریں اور اس کی تسبیح میں لگے رہیں اس کی کمال ذات اور کمال صفات کو بیان کرتے رہیں۔ تنبیہ : خاتم النّبیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد (جن پر نبوت ختم کرنے کا سورة ٴ احزاب رکوع نمبر 6 میں اعلان فرما دیا ہے) بہت سے آدمیوں نے نبوت کے دعوے کیے یہ ظاہر ہے کہ دعوے جھوٹے تھے ایسے لوگ آتے گئے مقتول بھی ہوئے اور کیفر کردار تک پہنچے، ان میں سے ایک شخص مسلیمہ پنجاب بھی تھا جو قادیان ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور جھوٹی پیشین گوئیوں کا سہارا لیا اور اس کی ہر پیشین گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور خاص کر جس جس پیشین گوئی پر سچا ہونے کا مدار رکھا تھا خاص کر وہ تو دنیا کے سامنے کھل کر واضح طور پر جھوٹی ثابت ہوگئی۔ اس جھوٹے مدعی نبوت نے اپنے نبی ہونے پر سورة الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت سے استدلال کرتے ہوئے یوں کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو اب تک مجھے سزا مل گئی ہوتی، میں مرچکا ہوتا اور میری رگ جان کٹ چکی ہوتی۔ آیت کریمہ میں صرف محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کی نبوت اور رسالت کا ذکر ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر ان کا دعویٰ صحیح نہ ہوتا تو ہم ان کو سزا دے دیتے اس میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ آپ کے بعد جو بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا ہم اسے موت دے دیا کریں گے اور اس کی رگ جان کاٹ دیا کریں گے۔ آیت کا یہ مفہوم اس جھوٹے شخص نے اور اس کے مشورہ دینے والوں نے خود سے نکالا ہے اللہ تعالیٰ کسی کا پابند نہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں معاملہ ہو آنحضرت ﷺ کے بعد بہت سے نبوت کے دعویدار گزرے ہیں ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا جس کا آیت کریمہ میں ذکر ہے تو کیا العیاذ باللہ وہ سب سچے ہوگئے ؟ پھر ایک سمجھدار آدمی کے لیے یہ کافی ہے کہ اگر یہ پنجاب کا مدعی نبوت جلد ہی مرجاتا تو اس سے اس کی ذلت زیادہ ظاہر نہ ہوتی، ہوا یہ کہ جیسے جیسے اس کے دعوے بڑھتے گئے پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتی چلی گئیں وہ برابر ذلیل ہوتا گیا اور اسہال میں مرگیا۔ اس جھوٹے مدعی نبوت کو سورة النساء کی آیت کریمہ ﴿نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ﴾ نظر نہ آئی جس میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ جو شخص رسول کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت ظاہر ہوچکی ہو اور وہ مسلمانوں کے راستہ کے خلاف کسی دوسرے راستہ کا اتباع کرے تو ہم اس طرف پھیرے رکھیں گے جس طرف وہ پھرا اور اس کو جہنم میں داخل کردیں گے۔ بات یہ ہے کہ جو شخص گمراہی کو اختیار کرتا ہے اور تنبیہ کرنے والوں کی تنبیہ پر واپس نہیں آتا اللہ جل شانہٗ اس کے دل میں مزید زیغ اور گمراہی ڈال دیتا ہے جیسا کہ سورة ٴ صف میں فرمایا : ﴿فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی بھی مدعی نبوت اور کوئی بھی ملحد اور زندیق اور گمراہی کا داعی اور ضلال اور عقائد باطلہ کا پیشوا اس دھوکہ میں نہ رہے کہ چونکہ میں جی رہا ہوں اور کھا رہا ہوں اور پی رہا ہوں اور میرے ماننے والے بڑھ رہے ہیں اور مجھے کوئی سزا نہیں مل رہی ہے اس لیے میں صحیح راہ پر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ﴿ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى ﴾ بھی سامنے رکھنا لازم ہے اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ مومنین کے راستے سے ہٹ کر جو بھی کوئی شخص گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا ہم اسے اس پر رہنے دیں گے اور ساتھ ہی ﴿وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ﴾ کا استحضار رہنا بھی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ہم ایسے شخص کو دوزخ میں داخل کریں گے۔ سورة ٴ نساء کی آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ مومنین کے راستہ کے علاوہ دوسرا راستہ اختیا رکرنا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ الحمد للّٰہ علی تمام تفسیر ھذہ سورة الحاقة اولا وآخرًا و باطنًا وظاھرًا
Top