Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 198
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْا١ؕ وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم پکارو انہیں اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَسْمَعُوْا : نہ سنیں وہ وَ : اور تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھتا ہے يَنْظُرُوْنَ : وہ تکتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَهُمْ : حالانکہ لَا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے ہیں وہ
اور اے مخاطب اگر تو ان کو ہدایت کی طرف پکارے تو وہ نہ سنیں گے اور تو سمجھے گا کہ وہ تجھے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ نہیں دیکھ رہے ہیں۔
معبود ان باطلہ نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں نہ عبادت گزاروں کی مدد کرسکتے ہیں اوپر کی آیت میں اولاد کے سلسلہ میں شرک اختیار کرنے کا ذکر تھا ان آیات میں بھی مشرکین کو تنبیہ فرمائی ہے اور شرک اختیار کرنے میں جو انہوں نے حماقت کی ہے اسے بیان فرمایا ہے، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اسی نے سب کچھ پیدا فرمایا جس نے سب کچھ پیدا فرمایا وہی عبادت کے لائق ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود اپنے خالق جل مجدہ کی مخلوق ہیں وہ کیسے عبادت کے مستحق ہوگئے ؟ مشرکین کا یہ طریقہ ہے کہ جب غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ یہ آڑے وقت میں ہماری مدد کریں گے یہ بھی حماقت کی بات ہے جن کو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ ان شرک کرنے والوں کی کچھ مدد نہیں کرسکتے، ان کی مدد کرنا تو در کنار وہ تو اپنی مدد کرنے سے عاجز ہیں اگر کوئی شخص انہیں توڑ دے پھوڑ دے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انہوں نے جو مورتیاں بنا رکھی ہیں وہ بےجان صورتیں ہیں نہ اپنے پاؤں سے چل سکتے ہیں نہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ سکتے ہیں نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے کانوں سے سن سکتے ہیں ان عاجزوں کو اللہ کا شریک بنانا اور ان سے مدد کی امید کرنا سراپا حماقت اور بےعقلی ہے ان کو پکارو تو بات نہ سنیں اور ہدایت کا راستہ بتاؤ تو اسے اختیار نہ کریں اور حال ان کا یہ ہے کہ وہ بظاہر اپنی مصنوعی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور حقیقت میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ ان کی آنکھیں اصلی نہیں ہیں جن سے وہ دیکھیں، اور کان اصلی نہیں ہیں جن سے وہ سنیں، ان بتوں کو خود ہی تراشتے اور خود ہی اٹھاتے اور رکھتے ہیں اور انہیں پوجتے ہیں۔ یہ حماقت اور شقاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے معبودوں کا عجز ظاہر فرمایا، اور ساتھ ہی اپنے نبی ﷺ سے خطاب فرمایا کہ ان سے کہہ دیجیے کہ تم اپنے معبودوں کو بلالو اور تم سب مل کر مجھے نقصان پہنچانے کی جو بھی تدبیر کرسکتے ہو کرلو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ، مطلب یہ ہے کہ یہ معبود ان باطلہ اور ان کی پرستش کرنے والے آپ کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرکین چونکہ اپنے معبودوں کے شر اور ضرر سے ڈراتے تھے۔ کمافی سورة الزمر (وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ) اس لیے نبی اکرم ﷺ سے ان کو چیلنج دلوا دیا کہ تم اور تمہارے معبود جو کچھ کرسکتے ہوں کرلیں۔ ان لوگوں کا عجز ظاہر فرما کر ساتھ ہی معبود حقیقی کا مددگار ہونا بیان فرمایا کہ اللہ میرا ولی ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ اپنے نیک بندوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کی حفاظت اور حمایت فرماتا ہے جو اس کا ہوگا دنیا و آخرت میں اس کی حفاظت فرماتا ہے (وَ ھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ )
Top