Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجیے بلاشبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اخلاق عالیہ کی تلقین اور شیطان کے وسوسے آنے پر اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کا حکم پہلی آیت میں تین باتوں کا حکم دیا اوّل یہ کہ معاف کیا کیجیے، دوسرا یہ کہ بھلائی کا حکم کیجیے اور تیسرا یہ کہ جاہلوں سے اعراض کیجیے۔ اس آیت شریفہ میں مکارم اخلاق بیان فرمائے ہیں۔ صحیح بخاری ص 669 ج 2 میں حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں معافی کا رویہ اختیار فرمائیں۔ تفسیر ابن کثیر ص 667 ج 2 میں ہے کہ آیت بالا نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل سے سوال فرمایا کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت جبرائیل نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ پر جو شخص ظلم کرے اس کو معاف فرمائیں اور جو شخص آپ کو نہ دے اس کو عطا فرمائیں اور جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑے رکھیں، حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیا پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے فضیلت والے اعمال بتا دیجیے آپ نے فرمایا اے عقبہ ! جو شخص تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑے رہو اور جو شخص نہ دے اس کو دیتے رہو اور جو شخص پر ظلم کرے اس سے اعراض کرتے رہو۔ (الترغیب و التربیب ص 342 ج 3) معاف کرنے کی ضرورت اور فضیلت : چونکہ انسان مدنی الطبع ہے یعنی اس کا مزاج میل جول والا ہے اس لیے وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ جب مل جل کر رہے گا تو اپنوں سے اور پرایوں سے، رشتہ داروں سے اور دوسرے لوگوں سے، چھوٹوں سے اور بڑوں سے واسطہ پڑے گا۔ جب مخلوق سے تعلق ہوگا تو ان سے تکلیفیں بھی پہنچیں گی اور مزاج کے خلاف بھی باتیں پیش آئیں گی۔ چھوٹوں سے بھی غلطیاں ہوں گی بڑوں سے بھی کوتاہیاں ہوں گی۔ یہ تکالیف ہیں ان پر صبر کرنا اور درگزر کرنا بہت بڑا عمل ہے اگرچہ بعض حالات میں بدلہ لینا بھی جائز ہے۔ لیکن جتنی تکلیف پہنچی ہو اسی قدر بدلہ لیا جاسکتا ہے۔ اگر زیادتی کردی تو اب یہ خود ظالم ہوجائے گا۔ سورة شوریٰ میں فرمایا : (وَجَزَآءُ سَیّْءَۃٍ سَیّْءَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓءِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ اِِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُولٰٓءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) (ترجمہ) اور برائی کا بدلہ برائی ہے ویسی ہی برائی، پھر جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے، واقعی اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور جو شخص اپنے اوپر ظلم ہو چکنے کے بعد برابر کا بدلہ لے لے سو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں، الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ناحق دنیا میں سرکشی کرتے ہیں۔ ایسوں کے لیے درد ناک عذاب ہے اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے۔ یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ معاف کردینے کی فضیلت بہت ہے (اور اگر کسی موقع پر معاف کرنا حکمت اور مصلحت کے خلاف ہو تو وہ دوسری بات ہے) انسان کے نفس میں جو بدلہ لینے کا جذبہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے معاف کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن جس نے نفس پر قابو پا لیا اور معاف کرنے پر آمادہ کرلیا اس کے لیے معاف کرنا آسان ہوجاتا ہے، معاف کرنے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے لیکن اس کا اجر بھی بہت ہے اور مرتبہ بھی بہت بڑا ہے اسی لیے فرمایا ہے۔ (فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ) اور فرمایا (وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) جو شخص بدلہ لینے پر قادر نہ ہو معاف کردینا اس کے لیے بھی بڑے ثواب کی چیز ہے لیکن جو شخص انتقام لینے کی قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے اس کا مرتبہ بہت زیادہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ بن عمران (رسول بنی اسرائیل) (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے رب آپ کے بندوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جواب دیا کہ جو شخص قدرت رکھتے ہوئے بخش دے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان ص 319 ج 6) حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بھائیوں کو معافرمانا : حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ مشہور و معروف ہے۔ بھائیوں نے انہیں کنوئیں میں ڈال دیا پھر چند ٹکوں کے عوض انہیں بیچ دیا پھر جب برسوں کے بعد مصر میں ان کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم خطا کار تھے تو انہوں نے جواب میں فرما دیا۔ (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ) (یوسف نے فرمایا کہ تم پر آج کوئی الزام نہیں، اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف کرے اور وہ سب مہر بانوں سے زیادہ مہربان ہے) ۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کا اہل مکہ سے برتاؤ : سید الاولین و الآخرین ﷺ کے ساتھ مکہ والوں نے کیا کچھ نہ کیا، کیسی کسی تکلیفیں دیں آپ کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ پھر جب آپ فتح مکہ کے موقع پر صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف لے گئے اور مکہ معظمہ فتح ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ کیا خیال کرتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا، اہل مکہ نے کہا : (اَخٌ کَرِیْمٌ وَ ابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ کہ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ نے ان کو وہی جواب دیا جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو جواب دیا تھا اور فرمایا : (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) در حقیقت اخلاق عالیہ ہی سے اہل حق جیتتے ہیں اور نہی کے ذریعہ اسلام کی دعوت عام ہوئی ہے۔ اخلاق عالیہ میں معاف اور درگزر کرنے کا بڑا دخل ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی جان کے لیے کبھی کسی بارے میں کوئی انتقام نہیں لیا جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے ان کی بےحرمتی ہوتی تھی تو آپ انتقام لے لیتے تھے۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عائشہ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول ﷺ نہ فحش گو تھے اور نہ بتکلف فحش گوئی اختیار کرتے تھے نہ بازاروں میں شور مچاتے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرماتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (رواہ الترمذی) حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے آٹھ سال کی عمر سے لے کر دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، آپ نے مجھے کسی ایسے نقصان کے بارے میں کبھی ملامت نہیں فرمائی جو میرے ہاتھوں ہوگیا ہو، اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی شخص ملامت کرنے لگتا تو فرماتے تھے اسے چھوڑو کیونکہ جو چیز مقدر ہوچکی وہ ہونی ہی تھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 519) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی مرتبہ معاف کریں۔ آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی آپ پھر خاموش رہے۔ اس نے تیسری بار پھر سوال کیا آپ نے فرمایا روزانہ ستر بار معاف کرو۔ (رواہ ابو داؤد، کمافی المشکوٰۃ ص 292) فائدہ : معاف کرنے کی فضیلت اور ضرورت جو اوپر بیان کی گئی اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ بچوں اور خادموں کو شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیا جائے اور ان کی تربیت نہ کی جائے بلکہ تربیت بھی کی جائے اور درگزر بھی کیا جائے۔ اگر کوئی سزا دی جائے تو اپنا غصہ اتارنے اور انتقام کے لیے نہ ہو بلکہ ان کی خیر خواہی مقصود ہو۔ سوچ سمجھ کر بقدر ضرورت سزا دی جائے اور یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ سزا مفید ہوگی یا مضر، اگر بچوں پر قابو نہ کیا جائے تو یہ بھی نیکی نہیں ہے۔ حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : و انفق علیٰ عیالک من طولک و لا ترفع عنھم عصاک ادبا و اخفھم فی اللہ (رواہ احمد کمافی المشکوٰۃ ص 18 ج 1) اور اپنے عیال پر اپنا اچھا مال خرچ کرو اور ان سے لاٹھی اٹھا کر مت رکھو جس کی وجہ سے وہ تمہاری گرفت سے مطمئن ہوجائیں اور احکام خداوندی کو فراموش کردیں اور انہیں اللہ کے احکام و قوانین کے بارے میں ڈراتے رہو۔ امر بالمعروف : آیت بالا میں دوسری نصیحت یوں فرمائی وَاْمُرْ بالْعُرْفِ یعنی بھلائیوں کا حکم دیا کر، بھلائیوں کا حکم دینا بھی مکارم اخلاق اور فضائل اعمال اور محاسن افعال میں سے ہے اور دین اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بہت بڑی فضیلت ہے، جس کے بارے میں ہم تفصیل سے سورة آل عمران کی آیت (وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ ) کے ذیل میں لکھ چکے ہیں۔ (انوار البیان جلد اول) جاہلوں سے اعراض کرنا : تیسری نصیحت یوں فرمائی (وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ) (اور جاہلوں سے اعراض کرو) یہ بھی بہت اہم نصیحت ہے اور اس پر عمل کرنے سے مومن بندہ اپنے نفس کے شر سے اور جاہلوں کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ سوال جواب اہل علم تک محدود رہے تو مناسب رہتا ہے اور جاہلوں سے سوال جواب اور بحث کی جائے تو وقت ضائع ہوتا ہے اور جاہل اپنی جہالت کی وجہ سے صاحب علم کو خاموش کر کے یہ سمجھتا ہے کہ میں جیت گیا۔ صاحب علم کے اخلاق فاضلہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جاہلوں سے نہ الجھے اور ان سے دور رہے اور جاہل کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو اسے برداشت کرے اور درگزر کر دے۔ عالم اگر جاہل کے جاہلانہ افعال و اقوال اور اطوار و عادات کا مقابلہ کرے گا تو علم کا کام چھوڑ بیٹھے گا اور جاہلوں ہی سے بھڑتا رہے گا۔ اگر کوئی جاہل شخص شرعی مسئلہ پوچھے تو اسے بتادے لیکن اس سے بحث نہ کرے نہ اسے بحث کرنے دے۔ جاہل کو منہ لگانے میں اپنی آبرو کا بھی نقصان ہے اور علمی کاموں سے بھی حرمان ہے۔ شیطان کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ لینے کا حکم : دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) (اور اگر شیطان کی طرف سے آپ کو کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجیے بلاشبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے) ۔ درمنثور ص 154 ج 3 میں بحوالہ ابن جریر نقل کیا ہے کہ جب آیت شریفہ (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا کہ اے رب غصہ کی حالت میں کیا کیا جائے (غصہ انتقام پر ابھارتا ہے اور معاف کرنے سے روکتا ہے) اس پر اللہ جل شانہٗ نے آیت و اما ینزغنک (آخر تک) نازل فرمائی۔ لفظ نزغ کچو کہ دینے اور ابھارنے اور وسوسہ ڈالنے اور کسی کام پر آمادہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ شیطان انسان کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ غصہ اور انتقام پر ابھارتا رہتا ہے اور ایسے وسوسے دل میں ڈالتا ہے کہ انسان معاف کرنے یا درگزر کرنے پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔ شیطان کا شر اور وسوسہ دفع کرنے کا یہ علاج بتایا کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگی جائے اس سے شیطان ذلیل ہوگا اور وسوسہ ڈالنے سے پیچھے ہٹے گا۔ سورۂ مومنون میں فرمایا : (وَقُلْ رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَات الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ) (اور آپ یوں کہئے کہ اے رب میں آپ کی پناہ لیتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے اور اے رب اس بات سے کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں) ۔ ایمانیات میں وسوسہ آنے پر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس شیطان آئے گا سو وہ کہے گا کہ یہ کس نے پیدا کیا، یہ کس نے پیدا کیا۔ یہاں تک کہ یوں کہے گا کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا۔ سو جب وہ اس سوال پر پہنچ جائے تو یوں کہے۔ اَللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ پھر بائیں طرف تین بار تھوک دے اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگے۔ (رواہ ابو داؤد) غصہ کا علاج : حضرت سلیمان بن صرد ؓ نے بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ شروع کردی ان میں سے ایک شخص کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو یہ جو کیفیت اپنے اندر محسوس کر رہا ہے (یعنی غصہ) وہ ختم ہوجائے اور وہ کلمہ یہ ہے۔ (اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ ) (میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے) صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کی بات اس شخص کو کہہ دی تو اس نے کہا کہ بیشک میں دیوانہ ہوں۔ (رواہ البخاری ص 903 ج 2) (علماء نے لکھا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ غصہ میں بھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے بےادبی کا کلمہ بول دیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ شخص منافق ہو یا دیہات کا رہنے والا اکھڑ آدمی ہو) وسوسہ اور غصہ کے دفعیہ کے لیے (اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ ) پڑھنا مجرب ہے۔
Top