Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو نماز میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کا خوف کرتا ہوں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ فرمانا اور قوم کا سر کش ہو کر ہلاک ہونا امت حاضرہ کی یاد دلانی اور عبرت دلانے کے لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کے اور ان کی امتوں کے واقعات ذکر فرمائے ہیں کہیں ایک ہی نبی کا تذکرہ فرمایا اور کہیں متعدد انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا۔ کہیں تذکرے مختصر ہیں کہیں مفصل ہیں۔ یہاں سورة اعراف میں حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی تبلیغ و تذکیر اور ان کی امتوں کے انکار و تکذیب پھر اس پر ان کی سزا و تعذیب کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے دشمن فرعون کا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ فرمایا۔ سورۂ ہود میں بھی اسی ترتیب سے ان حضرات کے واقعات ذکر فرمائے ہیں پھر اسی ترتیب سے سورة شعراء میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے چونکہ عبرت دلانا مقصود ہے اس لیے یہ تکرار نہایت ہی مفید ہے منکرین کی یہ نادانی ہے کہ ان واقعات سے عبرت لینے کے بجائے یوں سوال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں تکرار کیوں ہے جسے شفقت ہوتی ہے بار بار تنبیہ و تذکیر کرتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ارحم الراحمین ہے اس نے اپنے غافل بندوں کی بار بار تذکیر فرمائی تو اس پر اعتراض کرنا جہالت و حماقت نہیں ہے تو کیا ہے۔ پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تذکیر و تبلیغ کا تذکرہ فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ صرف اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا واقعی اور حقیقی معبود کوئی نہیں۔ ان لوگوں نے بت بنا رکھے تھے جن میں سے بعض کے نام سورة نوح میں مذکور ہیں۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی تو آپس میں کہنے لگے۔ (لاَ تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوْثَا وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا) (کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو اور مت چھوڑ ووَدْ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق اور نسر کو) حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے (جیسا کہ سورة عنکبوت کے دوسرے رکوع میں بیان فرمایا ہے) اور ان لوگوں کی تفہیم و تذکیر میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی۔ وہ لوگ بہت بری طرح پیش آتے تھے طرح طرح کے طنز کرتے تھے اور ان کے سردار اور چودھری ان باتوں میں پیش پیش تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو اور جو تمہارے ساتھ لگے ہیں وہ تو ہماری نظر میں گھٹیا قسم کے لوگ ہیں۔ (سورۂ ہود) کبھی آپس میں یوں کہتے تھے کہ یہ ہمارے جیسا آدمی ہے یہ تم پر سرداری کرنا چاہتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے مقابلہ میں بڑا بن کر رہے۔ (جیسا کہ سورة مومنون میں ہے (یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ) نیز حضرت نوح (علیہ السلام) دعوت دیتے تھے تو یہ لوگ کپڑے اوڑھ لیتے تھے اور کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ (جیسے کہ سورة نوح میں مذکور ہے) اور نہ صرف یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے دور بھاگتے تھے بلکہ الٹا انہیں گمراہ بتاتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میں گمراہ نہیں ہوں میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور مجھے ان باتوں کا پتہ ہے جن کا تمہیں پتہ نہیں تمہیں اس بات سے تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نصیحت آگئی اور اس کا واسطہ تم میں کا ایک شخص بن گیا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ جس شخص کے واسطہ سے تمہارے پاس یہ نصیحت آئی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں پروردگار کے عذاب سے ڈرائے جو تکذیب کرنے والوں اور نافرمانوں کے لیے مقرر ہے۔ تم ڈرو اور کفر سے بچو اس میں تمہاری بھلائی ہے رب العالمین جل مجدہ تم پر رحم فرمائے گا۔ ان لوگوں نے جو عذاب آنے کی بات سنی تو اس کے ماننے کی بجائے یوں ہی دھمکی سمجھی اور کہنے لگے کہ (فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو) ان کی تکذیب ضد اور عناد کے باعث پانی کا زبردست طوفان آیا، حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی جو اہل ایمان تھے اور تعداد میں تھوڑے تھے اور کشتی میں سوار ہوگئے تھے وہ نجات پا گئے اور سب کافر غرق کردیئے گئے۔ ان لوگوں نے ہدایت کو نہ مانا۔ نصیحت پر کان نہ دھرا۔ گمراہی کو ہی اختیار کیا۔ اندھے بنے رہے۔ عقل و فہم کو بالائے طاق رکھ کر ضد اور عناد پر تلے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا مفصل قصہ انشاء اللہ العزیز سورة ہود (ع 4) میں آئے گا۔ فائدہ : تفسیر درمنثور ج 1 ص 212 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرنیں تھیں (ہر قرن سو سال کی ہوتی ہے) اور یہ قرون سابقہ سب ملت اسلام پر تھیں بعد میں اختلاف ہوا۔ اور کفر و شرک کی راہیں لوگوں نے اختیار کرلیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت پہلی امت ہے جس نے کفر اختیار کیا اور بت پرستی شروع کی۔
Top