Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 99
اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ١ۚ فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
اَفَاَمِنُوْا : کیا وہ بےخوف ہوگئے مَكْرَ : تدبیر اللّٰهِ : اللہ فَلَا يَاْمَنُ : بےخوف نہیں ہوتے مَكْرَ اللّٰهِ : اللہ کی تدبیر اِلَّا : مگر الْقَوْمُ : لوگ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ اٹھانے والے
کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے نڈر ہوگئے۔ سو اللہ کی تدبیر سے بےخوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جن کا برباد ہونا ہی طے پا چکا ہو۔
اللہ کے عذاب سے نڈر نہ ہوں : اس کے بعد آنحضرت سرور عالم ﷺ کے زمانے کے کافروں کو تنبیہ فرمائی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے پرانی قوموں پر عذاب بھیجا ان پر بھی عذاب آسکتا ہے۔ کیا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذاب رات کے وقت آجائے جب کہ یہ سوتے ہوں یا اس بات سے بےخوف ہیں کہ ہمارا عذاب دن کے شروع حصہ میں آجائے جبکہ یہ لوگ کھیل رہے ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے عذاب سے نڈر نہ ہوں۔ پہلی امتوں سے عبرت حاصل کریں اور نبی اکرم ﷺ کی تکذیب سے باز آئیں۔ پھر فرمایا (اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ ) (کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے نڈر بنے ہوئے ہیں) یہ استفہام انکاری ہے، مطلب یہ ہے کہ نڈر نہ بنیں اللہ کا عذاب آنے سے ڈریں اور ایمان قبول کریں (فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ ) (کیونکہ اللہ کی تدبیر سے وہی لوگ بےخوف ہوجاتے ہیں جن کو تباہ ہی ہونا ہے) عذاب کی تاخیر سے یہ نہ سمجھیں کہ عذاب نہیں آئے گا، جب عذاب آئے گا تو دیکھتے ہی رہ جائیں گے اور عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔ صاحب معالم التنزیل (ص 84 ج 2) فرماتے ہیں۔ و مکر اللہ استدراجہ ایاھم بما أنعم علیھم فی دنیاھم یعنی مکر اللہ (اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر) سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نعمتیں عطا فرماتا ہے اور عذاب بھیجنے میں اس کی طرف سے تا خیر ہوتی ہے۔ اس ڈھیل سے لوگ دھوکہ میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اور زیادہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
Top