بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر ایک ایسا وقت آچکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا فرمایا اور اسے دیکھنے والا سننے والا بنایا اسے صحیح راستہ بتایا، انسانوں میں شاکر بھی ہیں کافر بھی ہیں یہاں سے سورة الدھر شروع ہو رہی ہے جس کا دوسرا نام سورة الانسان بھی ہے اس کے پہلے رکوع میں انسان کی ابتدائی آفرینش بتائی ہے اس کے بعد انسان کی دو قسمیں بتائیں ایک شکر گزار اور ایک ناشکرا اس کے بعد ناشکروں کا عذاب اور شکر گزاروں کے انعامات بیان فرمائے ہیں۔ دوسرے رکوع میں رسول اللہ ﷺ کو صبر کرنے اور ذکر کرنے اور راتوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور دنیا داروں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑا دن چھوڑ رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ انسان پر ایک ایسا وقت گزرا ہے کہ وہ بالکل ہی قابل ذکر کوئی چیز نہ تھا نہ اس کا کوئی تذکرہ کرتا تھا نہ اس کا کچھ نام تھا نہ اس کی کچھ حیثیت تھی، مطلب یہ ہے کہ یہ انسان جو دنیا میں نظر آ رہے ہیں ان میں بڑے بھی ہیں چھوٹے بھی ہیں متکبر بھی ہیں اکڑفوں دکھانے والے بھی ہیں ان میں سے ہر شخص پر ایسا وقت گزرا ہے کہ وہ کوئی چیز بھی نہ تھا جو قابل ذکر ہو بلکہ نطفہ منی تھا اور اس سے پہلے غذا تھا اور یہ غذا مٹی سے نکلی تھی، ہم نے اس کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا یعنی مرد اور عورت دونوں کے مخلوط مادہ منویہ سے رحم مادر میں اس کی ابتداء کی پھر وہ ایک عرصے تک نطفہ رہا پھر علق یعنی خون کا لوتھڑا بنا دیا پھر اس کے اعضاء بنا دیئے پھر اس میں جان ڈال دی اس کے بعد رحم مادر سے باہر آگیا یہ اس کا باہر آنا پلنا بڑھنا بےحکمت نہیں ہے انسان یوں نہ سمجھے کہ میں یوں ہی چھوڑ دیا جاؤں گا۔ (كما مر فی السورة السابقة) بلکہ اس کی یہ تخلیق ابتلاء اور امتحان اور آزمائش کے لیے ہے اسے بہت سے کاموں کا مکلف کیا گیا ہے۔ سورة ٴ ملک میں فرمایا ﴿لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے اعمال والا کون ہے) ۔ اور انسان کو صرف حیات دے کر آزمائش میں نہیں ڈالا بلکہ اس کو عقل و فہم و سمع و بصر کا عطیہ دیا ہے وہ سمجھتا ہے دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور ہدایت کو اس کی عقل و فہم پر نہیں رکھا بلکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور ان کے واسطے سے حق راہ بتائی چاہیے تو یہ تھا کہ تمام انسان اپنے خالق کو پہچانتے، مخلوق کو دیکھ کر خالق کی معرفت حاصل کرتے اور حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) نے جو دین پیش کیا اسے قبول کرتے اور اللہ کے شکر گزار بندے بنتے لیکن انسانوں کی دو قسمیں ہوگئیں ان میں سے بعض شکر گزار بنے اور بعض ناشکرے بن گئے، مومن بندے شکر گزار ہیں اور غیر مومن یعنی کافر ناشکرے ہیں جنہوں نے عقل اور سمع و بصر سے فائدہ نہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کر کے کفر اختیار کرلیا۔ (قال صاحب الروح وحاصلہ دللنا علی الھدایة والاسلام فمنھم مھتد مسلم ومنھم ضال کافر) قولہ تعالیٰ : ﴿هَلْ اَتٰى ﴾ قیل ھل بمعنی قدو قیل اصلہ اھل علی ان الاستفھام للتقریر ای الحمل علی الاقرار بما دخلت علیہ۔ وقولہ : امشاج، جمع مشجٍ بفتحتین او بفتح فکسر او جمع مشیج جمع خلطٍ بمعنی مختلف ممتزج یقال مشجت الشیٔ اذ خلطتہ ومزجتہ فھو مشیج وممشوج وھو صفة لنطفة ووصف بالجمع وھی مفردة لان المرادبھا مجموع ماء الرجل والمراة۔
Top