Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
ان پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے بھی اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں شراب طہور پلائے گا
جب ادنیٰ درجہ کے جنتی کا اتنا بڑا رقبہ ہوگا تو مختلف درجات کے اعتبار سے دیگر حضرات کے رقبہ کے بارے میں غور کرلیا جائے۔ ﴿ عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ ﴾ (اور ان پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے کپڑے بھی ہوں گے) یہ ریشم وہاں کا ہوگا دنیا کا ریشم نہ سمجھ لیا جائے اور باریک اور دبیز دونوں قسم کے ریشم عمدہ ہوں گے من بھاتے ہوں گے۔ ﴿ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ 1ۚ﴾ (اور ان کو زیور کے طور پر چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے) سورة الکہف اور سورة الحج میں ہے کہ کنگن سونے کے ہوں گے اس میں کوئی منافات نہیں دونوں طرح کے کنگن ہوں گے کہیں سونے کے کنگن کا ذکر فرما دیا اور کہیں چاندی کا۔ اہل جنت کے کپڑے ہرے رنگ کے ہوں گے کیونکہ یہ رنگ نظروں کو زیادہ بھاتا ہے اور کوئی لفظ حصر پر دلالت کرنے والا بھی نہیں ہے جس سے سمجھا جائے کہ صرف سبز رنگ ہی کے کپڑے زیب تن کریں گے۔ آیت کریمہ ﴿وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ ﴾ سے ظاہر ہے کہ جو کچھ جی چاہے گا وہی ملے گا اگر دوسرے رنگ کے کپڑے پہننے چاہیں گے تو وہ بھی عطا کردیئے جائیں گے اور جس کا جو جی چاہے گا پہنے گا اہل جنت کو جو کنگن پہنائے جائیں گے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنتیوں میں سے اگر کوئی شخص (دنیا کی طرف) جھانک لے جس سے اس کے کنگن ظاہر ہوجائیں تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو ختم کر دے جیسے سورج ستاروں کی روشنی کو ختم کردیتا ہے۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ المصابیح صفحہ 498) کنگن عورتوں کے ہاتھوں میں اچھے لگتے ہیں مردوں پر بھلا کیا سجیں گے ؟ فائدہ : کسی بھی لباس یا زیور کا سجنا اور شائستہ و آراستہ ہونا ہر جگہ کے عرف پر موقوف ہوتا ہے دنیا میں اگرچہ عموماً مرد کنگن نہیں پہنتے مگر جنت میں خواہش کر کے پہنیں گے اور سب ہی کو دیکھنے میں بھلے معلوم ہوں گے گھڑی کی چین ہی کو لیجئے طرح طرح کی بناوٹ اور چمک و زیبائش والی پہنی جاتی ہے اور مردوں کے ہاتھوں میں اچھی لگتی ہے بلکہ بعض قوموں میں تو بیاہ شادی کے موقعوں پر دولہا کو کنگن پہناتے ہیں اور برادری کے سب لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں چونکہ رواج ہے اس لیے سب کی نظر بھی قبول کرتی ہے اور سب کے دل بھی اچھا سمجھتے ہیں اور اس رواج پر اس قدر اڑے ہوئے ہیں کہ شریعت کی ممانعت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ ﴿ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا 0021﴾ اور ان کا رب انہیں پاک کرنے والی شراب پلائے گا۔ اس سورت میں پہلی جگہ ﴿اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ ﴾ فرمایا پھر دوسری جگہ ﴿ وَ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِاٰنِيَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ ﴾ فرمایا جس میں ان کے مزید اعزاز کا ذکر ہے کہ خدام شراب لے کر آئیں گے۔ تیسری جگہ ﴿وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ ﴾ فرمایا اس میں پلانے کی نسبت رب جل شانہ کی طرف کی گئی ہے جس میں زیادہ اعزاز ہے۔ شرابا کو متصف کیا ہے طھورا سے۔ اس کا ترجمہ بعض حضرات نے بہت زیادہ پاکیزہ کیا ہے۔ فعول کو مبالغہ کا صیغہ لیا ہے اور ترجمہ یوں کیا ہے کہ بہت زیادہ پاکیزہ شراب ہوگی۔ قال المحلی مبالغة فی طھارتہ ونظافتہ بخلاف خمر الدنیا اور صاحب المعالم التنزیل نے حضرت ابو قلابہ اور حضرت ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ لا یصیر بولا نجسا ولکن یصیر رشحا فی ابدانھم کریح المسلک۔ یعنی اسے شراب طہور اس لیے فرمایا کہ وہ ناپاک پیشاب نہ بنے گی بلکہ مشک کی طرح پیسنہ ہو کر نکل جائے گی اول کھانا کھائیں گے پھر شراب طہور لائی جائے گی جب اسے پی لیں گے تو جو کچھ کھایا تھا وہ سب ان کے مسامات سے خوب تیز مشک سے بھی زیادہ خوشبو والا پسینہ بن کر نکل جائے گا جن سے ان کے پیٹ خالی ہوجائیں گی اور کھانے پینے کی خواہش پھر عود کر آئے گی۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ لفظ طھور مطھر کے معنی میں ہے یعنی پاک کرنے والی چیز اس کا حاصل بھی تقریباً وہی ہے جو حضرت ابو قلابہ ؓ نے فرمایا ہے کہ جو کچھ کھایا ہوگا یہ شراب اندر جا کر مشک کی طرح باہر آجائے گی جس کی وجہ سے پیٹ خالی ہوجائیں گے۔
Top