Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
وہ لوگ نذر کو پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی،
﴿ يُوْفُوْنَ بالنَّذْرِ ﴾ دنیا میں وہ لوگ اپنی نذر پوری کرتے ہیں نذر کا معنی تو معروف ہی ہے مطلب یہ ہے کہ جب یہ حضرات کسی نیک کام کی نذر مان لیتے ہیں تو اسے پوری کرلیتے ہیں، جب کوئی شخص کسی کام کی نذر مان لے تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ سورة الحج میں فرمایا ﴿وَ لْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ ﴾ نذر نہ مانے تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر نذر مان لے (اور گناہ کی نذر نہ ہو) تو اس کا پورا کرنا واجب ہے اگر گناہ کی نذر مان لے تو اسے پوری نہ کرے بلکہ اس کا وہی کفارہ دے دے جو قسم کا کفارا ہے۔ احادیث شریفہ میں نذر کے بارے میں یہ ہدایات وارد ہوئی ہیں۔ (دیكھئے مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 297) ﴿ وَ يَخَافُوْنَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِيْرًا 007﴾ یہ بھی نیک بندوں کی صفت ہے اس میں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے نیک بندے قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی، سورج اور چاند بےنور ہوجائیں گے ستارے جھڑ جائیں گے آسمان پھٹ پڑیں گے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے لوگ قبروں سے گھبرائے ہوئے اٹھیں گے، حساب ہوگا، پریشاں ہوں گی۔ حضرت عائشہ ؓ ایک دن رونے لگیں تو آپ نے فرمایا : کیوں روتی ہو ؟ عرض کیا مجھے دوزخ یاد آگئی اس کی وجہ سے رو رہی ہوں۔ یہ ارشاد فرمایئے کہ آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد فرمائیں گے آپ نے فرمایا تین مواقع میں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا : (1) ایک تو اعمال کے وزن کیے جانے کے وقت جب تک یہ نہ جان لے کہ اس کی تول ہلکی ہوتی ہے یا بھاری۔ (2) جب اعمالے نامے تقسیم کیے جانے لگیں جب تک یہ نہ جان لے کہ اعمالنامہ داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے یا بائیں ہاتھ میں پشت کے پیچھے سے۔ (3) جب دوزخ کی پشت پر پل صراط رکھ دی جائے گی۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ 298 ص ج 2)
Top