Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! خیانت نہ کرو اللہ کی اور رسول کی، اور نہ خیانت کرو اپنی آپس کی امانتوں میں حالانکہ تم جانتے ہو۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو اور آپس میں بھی خیانت کرنے سے باز رہو درمنثور (ص 178 ج 3) میں حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ جب ابو سفیان کی مکہ سے روانگی ہوئی تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو بتادیا کہ ابو سفیان فلاں فلاں جگہ پر ہے لہٰذا اس کی طرف نکل کھڑے ہوں اور اس بات کو پوشیدہ رکھیں لیکن بعض منافقین نے ابو سفیان کو بذریعہ خط اطلاع دے دی کہ حضرت محمد ﷺ تمہارے قافلے پر حملہ آور ہونے کے لیے ارادہ کر رہے ہیں لہٰذا تم اپنی حفاظت کی فکر کرو۔ اس پر آیت بالا نازل ہوئی اور ایک روایت یوں ہے جو حضرت ابن شہاب زہری سے مروی ہے کہ بنو قریظہ (جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا) انہوں نے جب معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ فرمایا انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ جو فیصلہ کریں وہ ہمیں منظور ہے۔ حضرت سعد نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں جو بالغ مرد ہیں ان کو قتل کردیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ ان کے اس فیصلہ کا علم حضرت ابو لبابہ ؓ کو ہوگیا جو یہودیوں کے حلیف تھے انہوں نے یہودیوں کو اپنے گلے پر ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے یہ بتادیا کہ تمہارے بارے میں قتل کا فیصلہ ہے۔ اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ حضرت ابو لبابہ ؓ کو جب اپنی غلطی کا حساس ہوا تو سمجھ گئے کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول کی خیانت کی ہے لہٰذا انہوں نے مسجد نبوی کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا اور کہنے لگے کہ میں نہ کچھ چکھوں گا اور نہ پیوں گا حتیٰ کہ مرجاؤں یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرمائے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا کہ میرے پاس آجاتا تو میں اس کے لیے استغفار کردیتا۔ اب جو اس نے خود ایسا کرلیا ہے تو میں اس وقت چھوڑ سکتا ہوں جب اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے۔ سات دن تک انہوں نے کچھ نہ کھایا نہ پیا۔ یہاں تک کہ بیہوش ہو کر گرگئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے اور ان کو کھول دیا۔ (روح المعانی ص 190 ج 9) آیت کا سبب نزول جو بھی ہو اس میں اللہ اور اس کے رسول کی خیانت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور اس کا عموم ہر طرح کی خیانت کو شامل ہے اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا لا تخونوا اللہ بترک فرائضہ و الرسول بترک سنتہ یعنی فرائض کو چھوڑ کر اللہ کی خیانت نہ کرو اور سنتوں کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خیانت نہ کرو۔ (درمنثور ص 178 ج 3) معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خیانت ہے اور جن چیزوں کو پوشیدہ رکھنے کا حکم فرمایا ہو ان کو ظاہر کردینا بھی خیانت میں شمار ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خیانت کرنے کی ممانعت کے بعد فرمایا (وَلاَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ ) اور آپس میں اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو چونکہ امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور ہر طرح کی امانت میں خیانت کرنے کی ممانعت ہے اس لیے ہر خیانت سے نہایت اہتمام کے ساتھ پرہیز کرنا لازم ہے۔ مالی خیانت کو تو سبھی جانتے ہیں مثلاً کوئی شخص امانت رکھ دے تو اس کو کھاجائے یا استعمال کرے یا کم کر دے یا دو شریک آپس میں خیانت کرلیں جو شخص قرض دے کر یا کسی بھی طرح اپنا مال دے کر بھول جائے اس کا حق رکھ لیں وغیرہ وغیرہ یہ سب خیانتیں ہیں اور ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کس کا حق مارا ہے اور کس کی خیانت کی، فکر آخرت اور اللہ کا ڈر ہو تو انسان خیانت سے بچ سکتا ہے ورنہ دنیاوی نفع کو دیکھ کر بڑے بڑے دیانت داری کے دعویدار اس مسئلہ میں کچے پڑجاتے ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے متعلقہ احکام میں دیانت دار ہے۔ چھوٹے بڑے حکام اور ملوک اور رؤساء اور وزراء امانت دار ہیں۔ انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے مطابق پوری کریں۔ کسی بھی معاملے میں عوام کی خیانت نہ کریں۔ اسی طرح سے بائع اور مشتری اور سفر کے ساتھی، پڑوسی، میاں بیوی، اور ماں باپ اور اولاد سب ایک دوسرے کے مال کے اور دیگر متعلقہ امور کے امانت دار ہیں۔ جو بھی کوئی کسی کی خیانت کرے گا گنہگار ہوگا اور میدان آخرت میں پکڑا جائے گا۔ مالیات کے علاوہ دیگر امور میں خیانت ہوتی ہے جن کا ذکر احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یعنی تم امانتوں میں خیانت نہ کرو جبکہ تم خیانت کا برا انجام جانتے ہو اور تمہیں اس کے معصیت ہونے کا علم ہے۔ امانت اور خیانت کے بارے میں تفصیلی نصائح اور احکام ہم سورة نساء کی آیت (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں 1 ؂ اور ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔
Top